وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ یونان جانے والی کشتی میں 400 افراد کی گنجائش تھی مگر اس پر 700 افراد سوار تھے جن میں سے 350 پاکستانی تھے، تمام افراد ڈوب گئے اور صرف 104 زندہ بچے جن میں 12 پاکستانی تھے۔ان میں سے 7 افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ 5 پاکستانیوں کو رہا کردیا گیا –
قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے رانا ثناءاللہ نے کہاکہ کشتی ڈوبنے والے واقعے پر ایوان کو اعتماد میں لینا چاہتا ہوں، 10 جون کو کشتی ڈوبی اس کی 400 کی گنجائش تھی لیکن 700 افراد سوار تھے جس میں پاکستانیوں کی تعدادِ 350 تھی، 104 لوگ جو بچ گئے ان میں 12 پاکستانی بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس واقعے میں اس سے قبل اتنے لوگ جان سے نہیں گئے، 82 لاشیں مل گئی ہیں جن کا فرانزک کرایا گیا، 281 فیملیز نے رابطہ کیا ہے اور تمام فیملیز کے ساتھ رابطے میں ہیں، 193 کے قریب ہم نے ڈی این اے سیمپل لیے ہیں، گریڈ 22 کے افسر اس معاملے کی انکوائری کررہے ہیں، مجرمان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا، اس سے پہلے کبھی مجرمان کو سزا نہیں ہوئی، حکومت کی جانب سے یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ 99 فیصد لیگل ویزے پر یو اے ای اور لیبیا تک جاتے ہیں مگر اس سے آگے غیر قانونی طریقے سےجان خطرے میں ڈال کر سمندر کے راستے سفر کرتے ہیں ہیں۔ اب پہلی بار ایف آئی اے نے اس گینگ کے خلاف ایکشن کا فیصلہ کیا جو پاکستانیوں کو سبز باغ اور سہانے خواب دکھاکر پیسہ بٹورتے رہے -یونان کشتی حادثہ کے ذمے داران میں سے لیبیا میں بیٹھ کر نیٹ ورک کو آپریٹ کرنے والے گروہ کا تیسرا ساتھی بھی گرفتار ہو گیا، اس ےپہلے ایف آئی اے نے اس گروہ کے دو ساتھی محسن اور شرافت کو گرفتار کیا تھا ۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے قیصر بشیر کا کہنا ہے کہ ملزم علی احمد لوگوں سے پاکستان میں بیٹھ کر رقم وصول کرتا تھا، گروہ کے دو سر غنہ ملزمان وسیم اور ندیم تاھال لیبیا میں مقیم ہیں-
اسی گینگ میں شامل سیٹھ مقصود نامی ایک شخص اس نیٹ ورک کے لئے لوگوں سے پیسے وصول کر کے باہر بھجواتا ہے۔جلال پور جٹاں میں قیصر نامی ایجنٹ نوجوانوں کو لیبیا بھجوانے میں سرگرم ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلال اور افضل دونوں بھائی بھی لوگوں کو لیبیا سے اٹلی بھجوانے کا دھندہ کر رہے ہیں۔ ملزمان کرنسی کی غیر قانونی اسمگلنگ اور ہنڈی حوالہ میں بھی ملوث تھے۔ ایف آئی اے نے مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی ہے۔