دنیا میں ہر وہ شخص جو اپنے ملک کو میڈل دلواتا ہے یا ورلڈ ٹائٹل لے کر وطن لوٹتا ہے یا وہ شخص جو انسانیت کے لیے ایسا فلاحیکام کرے کہ اس کا نام دنیا کی کتابوں میں آجائے تو دنیا بھر میں مقبول ہوجانے کے سبب اس کی اہمیت بھی یونیورسل ہوجاتی ہے اوراس کو علیحدہ انداز سے تریٹ کیا جاتا ہے اور عمران خان کو یہ دونوں کام کرنے کے بعد سے دنیا 1992 سے جان رہی ہے -یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو دنیا میں اتنی اہمیت دی جارہی ہے -اس پر نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ویدانت پٹیل نے کہنا ہے کہ ہم عمران خان کی گرفتاری کے معاملے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔تاہم تحریک انصاف کی جانب سے ان کی جماعت کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی شکایت دنیا بھر سے کی جارہی ہے -خاص طور سے خواتین کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہے اس پر دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کو سخت تشویش لاحق ہے – –
واشنگٹن میں پریس بریفنگ کے دوران پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری اور سائفر پر سوال کیا گیا تو امریکی نمائندے ویدانت پٹیل نے کہا کہ ہم عمران خان کی گرفتاری اور اس معاملے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، کسی ایک خاص معاملے کے بارے میں نہیں بولیں گے۔ لیکن ہم اپنے کانگریس کے شراکت داروں کے ساتھ بہت سے معاملات پر مشاورت کرتے ہیں۔
اس سے قبل ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ امریکا کسی ملک کے اندرونی سیاسی معاملات میں خود کو ملوث نہیں کرتا اور ہم پاکستان یا کسی دوسرے ملک کی سیاسی جماعتوں کا ساتھ نہیں دیتے۔ میتھیو ملر نے کہا تھا کہ سیاست دانوں کے خلاف کیسز پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، جمہوری اصولوں کا احترام لازم ہے۔
گزشتہ روز پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی اور آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور سے بھی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں جس میں انسانی حقوق کے تحفظ اور قانون کی حکمرانی کے احترام پر بات چیت کی گئی۔ ملاقات میں امریکی تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافے کے مواقع، انسانی حقوق اور مذہبی اقلیتوں کی بنیادی آزادیوں کے تحفظ کی اہمیت سمیت جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے احترام پر تبادلہ خیال کیا۔ اگرچہ امریکہ رجیم چینج آپریشن کے حوالے سے اپنے کردار سے مسلسل انکار کرتا رہا ہے مگر حقائق بتاتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت گرانے میں امریکی مداخلت شامل تھی جس کا تزکرہ شہباز حکومت میں ہونے والے قومی سلامتی کے اجلاس میں بھی ہوا تھا -مگر عمران خان کے اپنی بات پر اکڑ جانے کے بعد فوج اور تحریک انصاف میں اختلافات شدید تر ہوتے چلے گئے تھے -جس کا اختتام 9 مئی کے افسوسناک واقعے کے ساتھ ہوا –