کیپٹن کرنل شیر خان شہید (نشانِ حیدر) کا 25واں یومِ شہادت آج عقیدت اور احترام سے منایا جا رہا ہے آپ نے آج سے 25 سال قبل آج کے دن 7 جولائی 1999 کو کارگل کے مقام پر اپنی جان کا نزرانہ پیش کیا تھا ۔ یومِ شہادت پر مساجد میں قرآن خوانی اور دعائیں کی گئیں جبکہ علماء نے شہید کے درجات کی سربلندی کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا۔ علماء کرام کا کہنا تھا کہ جو قومیں اپنے شہداء کی تکریم نہیں کرتیں وہ ذلیل و رسوا ہو جاتی ہیں، شہید ہمیشہ زندہ ہوتے ہیں، کیپٹن کرنل شیر خان شہید قوم کا بہادر بیٹا تھا جو ہمیشہ ہر دل میں زندہ رہے گا۔
کیپٹن کرنل شیر اور اُن کے 14ساتھیوں کو 5جولائی 1999 کو کاشف اور وکیل پوسٹ کے درمیان موجود مزاحمتی ناکہ بندی کو ختم کرنے کا مشن سو نپا گیا۔ اِس دوران کیپٹن کرنل شیر خان کو دشمن کی ایک اور مزاحمتی پوزیشن اور کاشف پوسٹ کی جانب بڑے حملے کی غرض سے آگے بڑھتی دُشمنوں کے سپاہیوں کی کثیر تعداد نظر آئی۔ اِن سخت کٹھن حالات کے باوجود آپ نے اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے ہمراہ دُشمن پر بھرپور حملہ کر کے اُسے ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا۔ شیر خان اور ان کے ساتھی شیروں کی طرح لڑے کیپٹن کرنل شیر خان کی اِس دلیرانہ کارروائی نے دشمن کے قدم اکھاڑ دیے اور اُسے بھاری نقصان اُٹھانا پڑا۔ مگر دشمنوں میں گھرے یہ پاکستان کے بیٹے اسنائپر فائر کی زد میں آگئے اور شیر خان نے باقی ماندہ سات ساتھیوں کے ہمراہ جامِ شہادت نوش کیا۔ہندوستانی بریگیڈ کمانڈر نے کیپٹن کرنل شیر خان کی بے خوفی اور دلیری کا اعتراف اِن الفاظ میں کیا کہ ’’کیپٹن کرنل شیر خان کی قیادت میں بھرپور جوابی حملوں نے ہمارے قدموں کو تقریباً اکھاڑ دیا تھا‘‘۔ یہ اگرچہ ہمارا بدترین جانی دشمن تھا مگر جس طرح اس نے جنگ لڑی ہے اس تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی – ان کی اس دلیرانہ اور ناقابل فراموش کارکردگیپر ان کو بعد از شہادت نشان حیدر کا اعزاز دیا گیا -پوری قوم کو اپنے اس جوان پر فخر ہے –