کل سندھ والوں کے لیے بہت ہنگامہ خیز دن ہوگا ایک طرف سمندری طوفان پاکستان کے ساحلوں کی جانب تباہی پھیانے کے لیے بڑھ رہ اہے دوسری جانب سیاسی کشمکش بھی عروج پر ہے – کل یہ فیصلہ ہوگا کہ کراچی کا میئر کون ہو گا، اس میں پیپلز پارٹی کے مرتضیٰ وہاب یا جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمان ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گے ۔
یہ ایوان 366 ممبران پر مشتمل ہے۔ کل ہونے والے الیکشن کے بعد 184 اراکین کی حمایت حاصل کرنیوالی جماعت یا اتحاد کراچی کے میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب میں فاتح ہو سکے گا۔
پیپلز پارٹی 155 سیٹوں کے ساتھ اکثریتی جماعت ہے جبکہ جماعت اسلامی 130 سیٹوں کے ساتھ دوسری پوزیشن پر ہے۔ تحریک انصاف کے پاس 63 سیٹیں ہیں جبکہ مسلم لیگ نون صرف 16 سیٹیں حاصل کر سکی۔ دیگر چھوٹی جماعتوں میں جے یو آئی (ف) اور تحریک لبیک پاکستان ہیں جنہوں نے بالترتیب 4 اور ایک سیٹیں حاصل کیں۔
پیپلز پارٹی کو اکثریتی جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ اتحادی پارٹیوں مسلم لیگ نون اور جے یو آئی (ف) کی حمایت بھی حاصل ہے جس کے بعد اس کی مجموعی طاقت 175 اراکین تک پہنچ جاتی ہے۔دوسری جانب جماعت اسلامی کو تحریک انصاف کی حمایت حاصل ہے جس کے بعد ان کی ایوان میں مجموعی طاقت 193 اراکین تک بڑھ جاتی ہے۔اس کے طابق جماعت اسلام ی باآسانی اپنا مئیر منتخب کرواسکتی ہے مگر پیپلز پارٹی کسی بھی طریقے یہ الیکشن جیتنا چاہتی ہے پیپلز پارٹی کادعویٰ ہے کہ 9 مئی واقعات کے سبب پی ٹی آئی کے متعدد یوسی چیئرمین پی پی قیادت کیساتھ رابطے میں ہیں اور وہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے۔
اس پر جماعت اسلامی سندھ ہائیکورٹ چلی گئی تاہم عدالت عالیہ نے جماعت اسلامی کی بلدیاتی قانون میں ترمیم کیخلاف درخواست پر حکم امتناع کی استدعا مسترد کردی اور الیکشن کا انعقاد کل ہونا ہی قرار دیا ہے۔ اب کل کے نتائج سے ہی واضح ہو گا کہ کراچی کے میئر کا ہما کس کے سر بیٹھے گا، مگر اگر ایک بار پھر پیپلز پاری کوئی چالاکی کرکے اپنا مئیر منتخب کروالیتی ہے تو ایک اور سیاسی بحران جنم لے گا اور اس بار ہم جماعت اسلامی کو سندھ سرکار کے خلاف سڑکوں پر آتا دیکھیں گے جو حکومت کے لیے نئے مسائل پیدا کرسکتا ہے –