سزائے موت پانے والے گوجرانوالہ کے قیدی نے خود کو وکیل بنانا سکھایا اور اپنی غلطیوں کی اصلاح سے آٹھ سال بعد جیل سے آزاد آدمی بن کر باہر آ گیا۔رائے محمد ایاز کو قتل کے ایک مقدمے میں سزائے موت سنائی گئی اور جیل بھیج دیا گیا لیکن اس نے بری صحبت سے بچنے کے لیے خود کو کتابوں تک محدود رکھنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ اپنی اپیل پر فیصلے کا انتظار کر رہے تھے۔
ایاز کا کہنا ہے کہ وہ 18 سال کے تھے جب ان کے خلاف ایک “جعلی قتل کیس” میں ایف آئی آر درج کی گئی اور انہیں سزائے موت سنائے جانے کے

بعد جیل بھیج دیا گیا۔
جیل کے دوران، اس نے پہلے بیچلر آف آرٹس (بی اے) اور پھر صحافت میں ماسٹرز آف آرٹس (ایم اے) کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے خود کو قانون کا طالب علم بنانے کا فیصلہ کیا ۔
پاکستان میں قیدیوں کو پرائیویٹ امیدواروں کے طور پر اسکول اور یونیورسٹی کے امتحانات میں شرکت کی اجازت ہے۔
ایاز نے ترجمے کے ساتھ قرآن پاک بھی پڑھا۔ انہوں نے نجی ٹیلیویژن کو اپنے انٹرویو میں بتایا کہ ایم اے کرنے کے بعد اس نے قانون کی کتابیں پڑھنا شروع کیں اور حالات حاضرہ کے بارے میں اپ ڈیٹ رہے۔
اس نے کل آٹھ سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ان آٹھ سالوں میں سے، میں نے چار سال ڈیتھ سیل میں گزارے،” ۔
اس دوران دیگر قیدیوں نے اسے قانون کی پیروی کرنے اور قانون کی تعلیم کی ترغیب دی۔
ایاز نے کہا، “ایسا لگتا تھا کہ میں شروع سے ہی ایک وکیل ہوں۔ مجھے صرف اس شناخت کی حمایت کرنے کی ضرورت تھی۔”
آخرکار اس نے قانون کا امتحان پاس کیا۔
دریں اثناء لاہور ہائی کورٹ نے قتل کیس میں ان کی بے گناہی ثابت ہونے پر انہیں رہا کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے اپنی ججمنٹ میں لکھا کہ وقوعہ کے وقت ایاز اس گھہ پر موجود نہیں تھا جہاں یہ المناک سانحہ پیش آیا تھا اور یوں ۔
وہ ایک آزاد آدمی کی طرح جیل سے باہر نکلا۔

ایاز گزشتہ چھ ماہ سے قانون کی پریکٹس کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، “میں یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ حکومت کو اس بارے میں سوچنا چاہیے اور محکمہ جیل خانہ جات میں اصلاحات کو متعارف کرانا چاہیے اور قیدیوں کو صحیح راستے پر لانے کے لیے اقدامات کرنا چاہیے۔
محمد ایاز کی زندگی سے ایک سبق یہ ملتا ہے کہ اگر کوئی انسان برائی سے اچھائی کی جانب ایک قدم بڑھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہدایت کے کئی راستے کھول دیتا ہے وہ لوگ جو جرم کی دنیا سے نکلنا چاہتے ہیں انہیں ایاز کی طرز زندگی کے بہت کچھ سیکھنے کو مل سکتا ہے