منگل کو احتساب عدالت کے باہر پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنماء شاہد خاقان عباسی نےمیڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ پنڈورا لیکس پر کمیٹی کا کوئی قانون اور کوئی حقیقت نہیں ہے۔
حکومت جس کو منی لانڈرنگ کہتی ہے وہ ان لیکس میں سامنے آئی ہے اور اگر انصاف ہوگا تو یہ تمام لوگ جیل میں ہوں گے اور پھر ان افراد سے تفتیش کی جائے۔

پنڈورا لیکس سے متعلق انھوں نے مزید کہا کہ 700 پاکستانیوں کے اوورسیز آف شور کمپنیوں میں نام آئے ہیں۔
ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ وہ کون لوگ ہیں بلکہ ہمارا صرف یہ مطالبہ ہے کہ جب تک کوئی ثبوت نہ آئےاس وقت تک الزامات سے کوئی مجرم نہیں بن جاتا لیکن اس ملک کے چیرمین نیب اور وزیراعظم کو شاید اس بات کا علم نہیں ہے۔
سات سو 700 افراد کی انکوائری ہونی چاہیے کہ یہ اثاثے کہاں سے بنائے گئے اور سزائیں دینا عدالتوں کا کام ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ آج تک صرف نواز شریف کو سزا ہوئی اور وہ بھی جج کو بلیک میل کر کے سزا دلوائی لیکن چیرمین نیب اور وزیراعظم کہتے ہیں کہ سزائیں ہم دیتے ہیں۔
لیگی رہنما نے مزید کہا کہ جو قانون ایک شخص پر لاگو ہوا وہی ان 700 افراد پر ہونا چاہیے۔
جس طرح خواجہ آصف،احسن اقبال اور شاہد خاقان کو الزامات پر جیل میں ڈالا جاتا ہے اسی طرح 700 افراد کو بھی جیل ہونی چاہیے تاکہ عوام کو پتہ چلے کہ قانون سب کے لیے یکساں ہے۔

اپنے کیس سے متعلق انھوں نے کہا کہ ایل این جی کیس میں 8 گواہ آچکے ہیں لیکن کوئی یہ نہیں بتا سکا کہ کوئی ایک بھی بتا دے کہ کون سا جرم ہوا ہے۔ گواہ یہ بتاچکے ہیں کہ پاکستان کو اس ٹینڈر سے فائدہ تو ہوا لیکن نقصان کا کوئی نہیں بتاسکا۔
ملک میں آج بھی احتساب کا نام نہاد نظام جاری ہے۔
چئیرمین نیب سے متعلق انھوں نے کہا کہ چیرمین نیب کی مدت ملازمت میں 3 دن باقی ہیں۔
قانون کہتا ہے کہ چیرمین نیب کی تعیناتی پر مشاورت ہونی چاہیےلیکن وزیراعظم اور وزراء صدر سمیت آرڈیننس کی تیاری میں مصروف ہیں۔

قانون واضح طور پر کہتا ہے کہ مشاورت ہوگی لیکن اس کو ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔