پریس کانفرنس کرکے تحریک انصاف کے رہنماؤں کی رہائی پر پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس اعجاز انور برہم

آج ہائی کورٹ کے جج نے بھی حکومت سے وہی سوال کرلیا جو اس وقت پر پاکستانی کے دل میں ہے کہ جو شخص اہم سرکاری اور حساس اداروں پر حملوں میں ملوث ہونے کا الزام ہو ہو یا لوگوں کو اس طرف جانے کے لیے کال دے اور اس کال کا ریکارڈ حساس اداروں کے پاس موجود ہو وہ ایک پریس کانفرنس کے بعد ملزم کیسے معصوم قرار دیا جاسکتا ہے – پشاور ہائیکورٹ نے تھری ایم پی او کے تحت درخواستوں پر ریمارکس میں کہا ہے کہ جو پریس کانفرنس کر لے، وہ آزاد، جونہیں کرتا، دوبارہ گرفتار کر لیتے ہیں۔ ایک پریس کانفرنس پر انتہائی سیریس الزامات کیسے ختم ہو جاتے ہیں۔

 

 

Related posts

عمران خان کی دونوں بہنوں کے خلاف عدالتی فیصلہ محفوظ

جو ججز کے خلاف مہم چلائے گا اڈیالہ جیل جائے گا؛ فل کورٹ کا فیصلہ

میں عمران خان کو ویڈیو لنک پر دیکھنا چاہتا ہوں ؛ اے ٹی سی جج کا حکم