جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے پاکستان کو مسائل نے گھیرے میں لے رکھا ہے اس پر مصیبتوں کے سائے منڈلانے کا آغاز 11 ستمبر 1948 سے شروع ہوا جب بانی پاکستان نے اس وطن کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہا اس کے بعد لیاقت علی خان کو بھی پاکستان کی خدمت کرنے سے 1951 میں روک دیا گیا اس کے بعد وہ لوگ حکومت میں آنا شروع ہوگئے جن کو بادشاہت کا شوق تھا

ان کی شاہ خرچیاں نومولود پاکستان کہاں برداشت کرسکتا تھا اس لیے انھوں نے ورلڈ بنک اور ترقی یافتہ اقوام سے قرضہ لینے کا فیصلہ کیا اور پھر یہی ریت ہر حکمران نے نہایت ذوق وشوق سے نبھائی اور یوں پاکستان اور عوام قرضوں کے بوجھ تلے دبتے چلے گئے

جب خان صاحب نے سیاست کا آغاز کیا تو عوام کے اندر ایک آخری امید کی کرن جاگی دوسری جانب خان صاحب نے بھی وعدے اور قسمیں کھاکر لاگوں کو انصاف ،ایماندری ،کرپشن سے پاک وطن اور قرضون کی لعنت سے لیکر بھیک نہ مانگنے والی پاکستانی قوم کو نیا پاکستان دینے کا وعدہ کیا اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایسا پاکستان بنانے کی تگ و دو میں ہمہ وقت مصروف بھی ہیں
مگر ان کے ساتھ جو پاکستان کا خون چوسنے والی جونکیں چمٹی ہوئی ہیں وہ خان کی راہ میں ہر وقت کانٹے بچھاتی رہتی ہیں ،عوام کے منہ سے روٹی کا لقمہ چھینتی ہیں تو دوسری جانب خان کا روحانی سکون خان کو بھی غارت کرتی ہیں – خان خود بھی ان ڈاکوؤں سے بخوبی آگاہ ہیں مگر اس وقت وہ اس مافیا کے آگے بےبس نظر آتے ہیں جس کا تزکرہ وہ کئی بار اپنی تقریر وں میں بھی کرتے رہے ہیں
پاکستانی عوام کو خان سے 50 فیصد بھی وہ توقعات پوری نہیں ہوئیں جس کے بلند بانگ دعوے وہ ہر تقریر میں کنٹینر پر چڑھ کر کیا کرتے تھے عوام کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ کوں حکومت کررہا ہے انہیں تو روزمرہ کی اشیا سستی چاہیں آٹا چاہیے ،چینی،دودھ ،دال، چاول ،سبزی ایسی قیمتوں پر چاہیں جو ان کی جیب پر بھاری نہ ہوں خدا کرے کہ خان نواز اور زرداری کی جان چھوڑ کر اس مافیا کے پیچھے پڑ جائیں جو آٹا،چینی،پٹرولِ دودھِ غایب کردیتے ہیں ان افراد کو نشان عبرت بناےئیں ان کے اثاثے ضبط کریں کیونکہ جب تک یہ افراد سانپ بن کر اپنے اپنے اڈوں پر بیٹھے رہیں گے عوام مہنگائی کا رونا روتی رہے گی غریب خودکشیاں کرتے رہیں گے