پاکستان میں بد امنی پھیلانے اور شدت پسندی کو فروغ دینے والوں کےلیے عام معافی کا فیصلہ نہیں کیا گیا :معید یوسف

معید یوسف نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کرنے کے حکومتی فیصلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ عسکریت پسند گروپ کو گزشتہ دس پندرہ سالوں سے بھارت اور افغان انٹیلی جنس کی حمایت حاصل تھی۔

پاکستان نے بارہا عالمی برادری کو بتایا ہے کہ پاکستانی طالبان ضرب عضب فوجی آپریشن کے بعد افغانستان فرار ہو گئے تھے، انہیں پناہ گاہیں ملی تھیں اور پڑوسی ملک سے حملے شروع کر رہے تھے۔

انہوں نے نومبر 2020 میں حکومت کی طرف سے سامنے آنے والی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، “ہم نے گزشتہ سال پورا ڈوزیئر دیا تھا جس میں [ پوری تفصیل سے بیان کیا گیا تھا کس حملے کیپلاننگ کہاں ہوئی ، کہاں سے، کتنی رقم خرچ کی گئی، رسیدوں کی تصاویر، سب کچھ تھا،” انہوں نے نومبر 2020 میں حکومت کی طرف سے سامنے آنے والی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جس میں بھارت کے ثبوت موجود تھے کہ پڑوسی ملک پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔

“جب طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد صورتحال بدلی تو معلوم ہوا کہ موجودہ حکومت افغان طالبان سابق صدر اشرف غنی کی طرح پاکستان مخالف نہیں ہیں۔ اب یہ بحث شروع ہوئی کہ ٹی ٹی پی کے پاس وہ حمایتی بنیاد نہیں ہے جو اشرف غنی کی حکومت اور ہندوستان نے انہیں فراہم کی .

کوئی پاکستانی راستے سے بھٹک گیا ہے اور اگر وہ پاکستان کے قوانین اور آئین کے مطابق چلنا چاہ رہا ہے اور قانون کی پاسداری کرنے والا شہری بننا چاہتا ہے تو اس کا مطلب ہے اگر آپ نے پاکستان میں کوئی جرم یا دہشت گردی کی ہے تو آپ قانون کے مطابق ان کو سزائیں بھی قبول کرنی چاہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر افغانستان کی مدد نہ کی گئی تو وہاں بحران جنم لے سکتا ہے جو پورے خطے پر برے اثرات مرتب کرے گا اور اس کے اثرات پوری دنیا کو متاثر کر سکتے ہیں

Related posts

اعظم تارڑ نے خان کے معاملے پر اقوام متحدہ کو بھی شٹ اپ کال دے دی

بجلی کا شارٹ فال مزید بڑھ کر 6 ہزار663 میگاواٹ تک پہنچ گیا

پاکستانی قوم نے عید پر 500 ارب روپے خرچ کرکے 68 لاکھ جانور قربان کیے