عمر شریف ٹیلی ویژن کی مشہور شخصیت ہیں اور ملکِ پاکستان کے نامور کامیڈین، اداکار، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر ہیں۔ ایک عرصہ عمر شریف نے لوگوں کے ہونٹوں سے ہنسی لے کر انکے کانوں کو واپس کرنے کا ہنر نبھایا ہے۔ عمر شریف صاحب اس ملک کا وہ اثاثہ ہیں جنہیں کسی طور بھی گنوایا نہیں جا سکتا۔
عمر شریف کے جاری کردہ ویڈیو پیغام میں انہوں نے بتایا ہے کہ انہیں ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج صرف امریکہ میں ممکن ہے۔ اس کے علاوہ اس بیماری کا علاج سعودی عرب اور جرمنی میں بھی موجود ہے لہذا انہوں نے وزیراعظم پاکستان سے یہ درخواست کی ہے کہ انکے علاج کے لیے انہیں باہر ملک بھیجا جائے۔ تا کہ وہ دوبارہ صحت یاب ہو کر اپنے ملک اور اپنی قوم کی خدمت کر سکیں۔

اپنے ویڈیو پہیغام میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ ا س وقت شوکت خانم کینسر ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں اور چاہتے ہیں کہ وزیراعظم انکی درخواست قبول کریں اور انکے باہر ملک جانے کا انتظام کریں۔ باہر ملک جانے کے لیے انہیں کرونا کی وجہ سے جو مسائل درپیش ہیں اس کی وجہ سے انکا ویزا پراسس وغیرہ جلد نہیں ہو سکلے گا لہذا ریاستی سطح پر ہی اس کا انتظام ہونا چاہیے۔
وزیراعظم کے ترجمان شہباز گل کا کہنا ہے کہ وہ کل صبح وزیراعظم کو عمر شریف صاحب کا یہ ویڈیو پیغام دکھائیں گے اور ان سے ڈائریکشن لیں گے کہ اس حوالے سے جلد از جلد کیا کیا جا سکتا ہے۔ شہباز گل کا کہنا ہے کہ وہ سعودی عرب اور جرمن حکومت سے پہلے رابطہ کریں گے کیونکہ یہ ملک قریب بھی ہیں اور یہاں اگر علاج کا موقع ملتا ہے توعمر شریف صاحب کے لیے بھی آسانی ہو گی۔

عمر شریف صاحب تو ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں ہی اور انکا علاج کروانے کی حامی بھی وزیراعظم کے ترجمان نے بھر لی ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں فنکاروں کو یہ خجالت اٹھانا ہی کیوں پڑتی ہے کہ انکو کسی کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ اگرچہ مالی حوالے سے عمر شریف صاحب کو کوئی خاص پریشانی نہیں ہے لیکن اور کتنے ہی فنکار ہیں جو اپنا علاج نہیں کروا سکتے اور اسی ملک کے ہسپتالوں میں دم توڑ دیتے ہیں۔ مالی امداد تو انکی سِرے سے کی ہی نہیں جاتی اس پر ظلم یہ کہ انکے فن کا پورا معاوضہ بھی انہیں نہیں دیا جاتا۔
کامیڈی کنگ امان اللہ خاں صاحب نے کہا تھا کہ فنکار کو پیسوں کی ضرورت نہیں کیونکی وہ شاہ خرچ ہوتا ہے، فراخ دل ہوتا ہے اور پیسے خرچ کر بیٹھتا ہے اس لیے اسے روزمرہ کی چیزوں میں سہولیات دی جانی چاہییں۔ مثلاََ علاج میں، سفر میں، رہائش میں، ریلوے اور جہاز کے ٹکٹ میں، اور بازاروں وغیرہ میں تا کہ ایک فنکار کم پیسوں میں بھی اچھی زندگی گزار سکے۔ اسکو اگر کم پیسے بھی دئیے جائیں تو اسے سہولیات میسر ہونے کی وجہ سے اسے آسانی ہو۔ اس طرح اسے کسی کے آگے دستِ سوال دراز نہیں کرنا پڑے گا۔

ریاستی سطح پر اس ملک کو اپنے فنکار کو خوددار کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکی اگر فنکار محتاج ہو گا تو قوم محتاج ہو گی، اس قوم کی تاریخ محتاج ہو گی۔ تاریخی طور پر بھی ہمارے ملک میں فنکاروں کو کوڑا ہی سمجھا جاتا رہا ہے لیکن دیکھتے ہیں نئے پاکستان میں انکے لیے کتنی جگہ ہے۔ دیکھتے ہیں اس طرف تقدیر کے ساقی کی نظر کب پڑتی ہے۔۔۔
غالب نے کہا تھا۔۔
دیکھئیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے