پاکستان میں جب سے تبدیلی کی لہر آئی ہے ہر چیز بدل گئی ہے سوائے عوام کے مقدر کے -عوام کی تقدیر میں وہی لائینوں میں لگنا جاری ہے تھانہ کلچر ویسے کا ویسا ہی ہے عدالتوں میں انصاف کی فراہمی اسی طرح سستی کا شکار ہے مہنگائی نے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں

ہر ہفتے چیزوں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اگر حکومت سختی کرتی ہے تو چیزیں غائب کردی جاتی ہیں جس کی بنا پر ان کی قیمت اور بلند ہوجاتی ہے بجلی کے بلوں میں اضافے کے نئے طریقے ایجاد کرلیے گئے ہیں فیول ایڈجیسٹمنٹ ڈاکے کی سب سے بہترین قسم ہے جنوری کے بل ادا کر کے بھی ہم دسمبر تک پچھلے پیسے بھرتے رہتے ہیں
اور اب ہر 2 ماہ بعد کرونا کی آڑ میں سکول بند کردیے جاتے ہیں مگر والدین فیسیں سارا سال جمع کرواتے ہیں سکول مالکان سال بھر کی فیسیں اپنی جیبوں میں ڈال لیتے ہیں اور اساتزہ کی تنخواہیں کاٹ لیتے ہیں کیا خان صاحب کو استازہ نظر نہیں آتے
خدارا پرائویٹ سکول کے اساتزہ کے لیے بھی کوئی پالیسی بنائیں ان کی کم سے کم تنخواہ اور سال کی چھٹیوں کا فیصلہ کریں اگر سکولوں کی بندش کا یہی حال رہا تو قابل ترین اساتزہ یہ شعبہ ہی چھوڑ جائیں گے
اس کے علاوہ اب یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ نویں سے بارھویں تک سب بچوں کو پروموٹ کردیا جائے گا اگر یہی کام کرنا تھا تو پیپرز لینے کی ضرورت کیا تھی اب اگلے امتحانات اگست میں شروع ہونگے سال میں ایک بار امتحانت ممکن نہیں تو 2 بار سال میں کیسے امتحانات ہونگے ہماری وفاقی اور صوبائی وزرائے تعلیم سے درخواست ہے کہ تعلیم کے بارے میں جو بھی فیصلے لیں اس میں اس بات کو یقینی بنئیں کے بچے سارا سال سکول ،کالج اور یونیورسٹی جا کر تعلیم جاری رکھ سکیں کیونکہ آن لائن کلاسز سے نہ نصاب مکمل ہوسکتا ہے اور نہ ھی بچے پڑھائی کو سنجیدگی سے لیتے ہیں 90 فیصد طلبہ و طالبت کے پاس چھوٹے شہروں میں انٹر نیٹ کا مسئلہ رہتا ہے
تعلیمی ادارے کھلیں گے تو پالیسیوں پر عمل ہوگا لہٰزا سب سے پہلے اس بات کو یقینی بنئیں کہ اب تعلیمی ادارے کرونا کے باعث بند نہیں ہونگے سب سے پہلے بچوں کو اداروں میں ویکسین لگوائیں تاکہ ان کی زندگیوں کو بھی محفوظ بنایا جاسکے اور ان کے مستقبل کو بھی