نومسلم لڑکی آرزو فا طمہ کیس کی عدالت میں سماعت

 بچی سے پوچھ لیا جائے وہ کس کے ساتھ جانا چاہتی ہے؟

سندھ ہائیکورٹ نے پوچھا کہ کیا آپ اپنی مرضی سے مسلمان ہوئی ہیں؟ جس پر نومسلم آرزو نے بتایا کہ میں مسلمان ہوں اور اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔جسٹس کے کے آغا نے استفسار کیا کہ کیا مسلم لڑکی اپنے عیسائی والدین کے ساتھ رہ سکتی ہے؟

نظار تنولی ایڈووکیٹ نے کہا کہ آرزو مسلمان ہے اسے اپنے شوہر علی اظہر کے ساتھ جانے دیا جائے، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آج صرف آرزو کی درخواست کی سماعت ہے، ہم صرف اس درخواست پر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔جسٹس کے کے آغا نے کہا کہ سندھ میں کم عمری میں شادی جرم ہے اور عدالت بھی فیصلہ دے چکی ہے۔

آرزو فاطمہ کے والدین کے وکیل جبران ناصر نے کہا کہ علی اظہر کے وکیل نظار تنولی سماعت سے پہلے آرزو کو ڈراتے رہے، جس پر عدالت نے نظار تنولی ایڈوکیٹ پر برہمی کا اظہار بھی کیا۔ نظار تنولی ایڈوکیٹ کا کہنا تھا میں آرزو کا بھی وکیل ہوں۔عدالت نے آرزو فاطمہ کے والدین کو بھی روسٹرم پر بلا لیا اور استفسار کیا کہ بچی پر تشدد ڈر یا خوف تو نہیں پیدا کریں گے؟ جس پر والدین نے کہا کہ بچی پر کسی قسم کا تشدد نہیں کریں گے، والدین کا کہنا تھا بچی مسلم رہے یا عیسائی ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔

 عدالت نے آرزو فاطمہ کی والدین کے پاس واپس جانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا اور کہا کہ جب تک درخواست پر فیصلہ نہیں ہو جاتا آرزو کو کسی سے بات نہ کرنے دی جائے۔ عدالت نے آرزو کو فی الوقت دوبارہ شیلٹر ہوم بھیجنے کا حکم دے دیا۔

Related posts

ہائیکورٹ کا تحریک انصاف کی رہنما زرتاج گل کی فوری رہائی کا حکم

9 جولائی 1967:مادر ملت فاطمہ جناح کی 57 ویں برسی

پاکستان کی معروف خاتون شیف ناہید انصاری آپا انتقال کر گئیں