دو روز قبل سینیٹ کے چیرمین نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا -سابق چیرمین نیب نے اپنے اوداعی خطاب میں اہم انکشافات کیے جس میں یہ کہا گیا کہ میں نے اپنے عہدے سے اس لیے استعفیٰ دیا کیونکہ مجھے کچھ ایسے کام کرنے کا کہا جارہا تھا جو غیر قانونی تھا یا اس میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہورہے تھے -اس پر سوشل میڈیا میں طوفان اٹھ گیا کہ حکومت کے دباؤ کی وجہ سے اچھی شہرت کے حامل آفتاب سلطان نے مزید کام کرنے سے معزرت کی اب اس پر منصور علی خان نے بھی کھل کر بات کردی –
سینئر صحافی منصور علی خان نے دعویٰ کیاہے کہ دو افراد کی وجہ سے سابق چیئرمین نیب آفتاب سلطان کو عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا، ان افراد کے نام کے پہلے حروف، کے کےاور ایس ایم ہیں،جن کو سیدھا کرنے کیلئے آفتاب سلطان پر دباو ڈالا جارہا تھا۔
سابق چیئرمین نیب آفتاب سلطان کو کن دو لوگوں کی وجہ سے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا؟سینئر صحافی منصور علی خان نے بڑا دعویٰ کر دیاhttps://t.co/ktjd88W8o7
— Daily Pakistan (@DailyPakistan) February 23, 2023
تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی منصور علی خان نے یوٹیوب پر اپنے وی لاگ میں ان ناموں کے پیچھے کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ دو افراد کے کیسز پر بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا تھا، جن کے حوالے سے آفتاب سلطان پر دباو ڈالا جارہا تھا کہ انہیں سیدھا کرو، اب جب ہم نے اپنے خاموش ذرائع سے پوچھا کہ وہ دو افراد کون ہیں جن کی وجہ سے چیئرمین نیب کو مستعفی ہونا پڑا تو انھوں نے ان کے نام لینے سے صاف انکار کردیا ،میں نے ہم اس کو سمجھایا اور کہا بھائی تھوڑی ہمت کرو تمہیں کچھ نہیں ہوگا، تمہارا نام نہیں آئے گا، تو ان کی جانب سے جواب دیا کہ میرے پرَ جل جائیں گے۔
منصور علی خان نے کہا کہ جب میں نے اپنے ذرائع کو اصرار کیا کہ وہ نام بتائیں تو پھر انہو ں نے ان طاقت ور لوگوں کے نام تو نہیں بتائے بلکہ ان دو ناموں کے شروع کے حروف بتا دیئے۔”اس نے کہا جی میں آپ کو صرف ان کے ناموں کے شروع کے حروف دے دیتا ہوں، اب باقی خود ان کو ‘ڈی کوڈ’ کر لیں، اس نے جو حروف دیئے ہیں وہ “کے کے” اور” ایس ایم” ہیں ۔
سینئر صحافی نے اپنی ذرائع سے ہونے والی گفتگو کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ذرائع سے کہا کہ اس طرح تو ایس ایم ے تو شاہد مسعود بھی بنتا ہے اور کے کے کامران خان بھی بنتا ہے ۔اس نے کہا نہیں نہیں یہ دونوں نہیں ہیں، بے وقوفوں والی باتیں مت کریں ۔میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے پھر بتاو کون ہے انہوں نے کہا بھائی میں اس سے آگے نہیں جا سکتا ، ہمارے پَر جل جائیں گے مجھے مار دیا جائے گا، مجھے ڈھونڈ لیا جائے گا، میں نہیں کر سکتا، برائے مہربانی مجھے مجبور نہ کریں، یہ خبر دینے والے شخص کا کہنا تھا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں آئندہ بھی آپ کو رپورٹ لا کے دیتا رہوں۔ اسلام آباد سے اور پنڈی سے ،وہاں کے کوریڈور سے ،وہاں کے کمروں سے بڑے بڑے میٹنگ روم سے ،اس طرح کی خبریں لاتا رہوں تو برائے مہربانی مجھے مجبور نہ کریں۔
منصور علی خان نے کہا کہ اب کل کو آفتاب سلطان صاحب اگر کبھی کوئی کتاب لکھیں یا وہ کوئی انٹرویو دینا چاہیں جس میں وہ یہ بتا دیں کہ بھائی جان یہ ایس ایم اور کے کے کون ہے کیونکہ میرے ذہن میں ہے ،میں نے کہا یار ایس ایم جو ہے وہ کوئی سیاستدان بھی نہیں بنتا کوئی بڑا سیاستدان کوئی یعنی ہو نا کہ کوئی پی ٹی آئی کا یا ن لیگ کا کوئی ایسا بڑا سیاستدان ہو تو میں تو نہیں کیلکولیٹ کر سکا تو اگر آپ کے ذہن میں کوئی نام آتا ہے تو پھر آپ تجویز کر دیجیے گا کہ یہ ایس ایم اور کے کے کون ہے۔
سابق چیئرمین نیب آفتاب سلطان قوم کو سچ کیوں نہیں بتاتے ؟
سابق چیئرمین نیب آفتاب سلطان پر دباؤ موجودہ حکومت کا نہیں تھا؟
غیر سیاسی لوگوں کا دباؤ تھا جس کی وجہ سے استعفیٰ دیا گیا؟ pic.twitter.com/0V2pqGLgUw— Rasaai Khanjee (@RasaaiK) February 23, 2023
انہوں نے کہا آفتاب سلطان کے استعفے کی بڑی وجہ ان دو لوگوں کے حوالے سے جو کیسز ہیں اس کا مسئلہ پڑا ہوا تھا۔ اور اس کے بعد تیسری وجہ ایک یہ بھی ہے کہ جناب پاکستان تحریک انصاف کے معاملات کے اندر نا ذرا اس کو پہیے لگائیں کیسز کو پہیے لگائیں۔ اور یہ سیاسی اثرورسوخ جو ہے یہ عمران خان صاحب کے دور کے اندر بھی استعمال ہوتا تھا یہاں پہ بھی ہوتا تھا۔
شاہد خاقان عباسی صاحب کی بات جو ہے نا وہ مجھے پھر بار بار یاد آتی ہے کہ بھائی یہ جو نیب کا ادارہ ہے یہ صرف اور صرف پولیٹیکل وکٹمائزیشن کے لیے استعمال ہوتا ہے، اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے۔یہ جو پی ٹی آئی کا معاملہ ہے، پی ٹی آئی کے اوپر ہم بھی بہت تنقید کرتے ہیں جہاں وہ غلط ہوتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ میرا خیال میں حکومت نے جو شخص منتخب کیا تھا یعنی آفتاب سلطان،یہ آپ کے کام کا بندہ نہیں تھا آپ ان سے جو کام کروانا چاہ رہے تھے وہ یہ کام نہیں کر سکتے بندہ آپ کو کوئی اور چاہیے،، ماضی میں انہوں نے ایک آڈیو ٹیپ سنا دی تھی اور وہ آڈیو ٹیپ دو ہزار چودہ میں نوازشریف کو سنائی گئی تھی، وہ آڈیو ٹیپ دھرنے کیلئے ٹرننگ پوائنٹ تھا،اس آڈیو ٹیپ کو سنانے کے بعد سارا پریشر ن لیگ سے ختم ہو گیا تھا،تحریک انصاف کا کوئی بھی بندہ اس بات کو کبھی نہیں مانے گا، لیکن اس آڈیو ٹیپ نے بالکل بازی پلٹ دی تھی تو وہ آڈیو ٹیپ لانے والے آفتاب سلطان تھے تو اس لیے یہ لوگ امید کر رہے تھے کہ یہ ہمارا بندہ ہے اور ہم اسے جو بھی کہیں گے وہ یہ کر دیں گے،اس وقت بھی وہی حالات ہیں ن لیگ مہنگائی کی وجہ سے ،اپنے گرتے ہوئے ووٹ بینک کی وجہ سے، مریم نواز کی وجہ سے ایک بہت میں پریشر میں آئی ہوئی ہے کہ ہم اپنا ووٹ بینک کس طرح اکٹھا کریں –
مگر اب عمران خان کی مقبولیت کی وجہ سے حالت بہت بدل گئے ہیں -عوام کی ایک بڑی تعداد کپتان کے پیچھے کھڑی ہے جبکہ مسلم لیگ کا ووٹ بینک بہت حد تک کم ہوگیا ہے -اس لیے حکومت اپنا دباؤ اس طرح نہیں بنا پارہی جیسے اپنے پہلے دورحکومت میں بنالیتی تھی اور اب سوشل میڈیا بھی ہر معاملے کو اچھال کر غیر مقبول فیصلوں کو مسترد کروادیتا ہے –