آج ایک بار پھر چیرمین تحریک انصاف اپنے خلاف 16 مقدمات میں ضمانت حاصل کرنے لیے لاہور سے اسلام آباد آئے۔ پہلے وہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے جہاں سخت سکیورٹی اور شیلڈز کے حصار میں انہیں کمرہ عدالت نمبر ایک میں چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں لایا گیا۔اس دوران ان سے صحافیوں نے سوالات بھی کیے جس کا انھوں نے بڑے پرسکون انداز میں جواب دیا -عدالت پیشی کے موقع پر چند خواتین نے ان کے حق میں اور پارٹی چھوڑ کر جانےوالوں کے حوالے سے ایسے نعرے لگائے کہ وہاں پر موجود سب لوگ ہنسنے لگے –
شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے سوال پر عمران خان نے کہا ’شاہ محمود سے میٹنگ کیسی رہنی تھی وہ بندہ ایک ماہ جیل گزار کر آیا ہے۔ وہ کارکنان کو جیلوں سے رہا کرانے کا پلان لے کر آئے تھے۔ مجھے خاموش رہنے کا کوئی پیغام شاہ محمود نے نہیں دیا اور نہ ہی ہمارے درمیان کوئی تلخی ہوئی ہے۔‘ عمران خان نے کہا کہ نو مئی کے واقعے کی آزادانہ انکوائری ہونی چاہیے، اگر شفاف انکوائری ہوئی تو ہم ثبوت پیش کریں گے۔ نو مئی کے واقعات میں جنہوں نے عمارات جلائیں ان کے خلاف ایکشن ہونا چاہیے۔ پر امن احتجاج کرنا تو آئینی حق ہے۔‘ عمران خان نے کہا کہ مسائل کا حل صرف شفاف انتخابات ہیں، لیڈر کو صرف ووٹرز اور عوام مائنس کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کسی جماعت کو ڈس مینٹل کرنا جمہوریت کو ڈس مینٹل کرنا ہے۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اللہ نے تحریک انصاف کو ایلیکٹیبلز سے آزاد کروا دیا ہے۔ ہمارے پاس ایک ایک حلقے میں 7 ، سات امیدوار ہیں، ایلیکٹیبلز سے اب فرق نہیں پڑتا۔ اب جب بھی الیکشن ہوئے تحریک انصاف کا ٹکٹ جیتے گا۔
جب ان سے صحافیوں نے سوال کیا کہ کل جہانگیر ترین کے گھر پر نئی پارٹی کی لانچنگ میں اپنے ساتھیوں میں کس کو دیکھ کر سب سے زیادہ دکھ ہوا؟ اس پر عمران خان نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور کہا ’جہانگیر ترین گروپ میں شامل ہونے والے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو گڈ لک کہتا ہوں۔‘ عمران خان نے مزید کہا کہ ’فوجی عدالت میں ٹرائل کا مطلب ہے کہ جمہوریت ختم ہوگئی ہے۔ یہ ایک غیر قانونی ٹرائل ہوگا، اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ میرے خلاف بننے والے تمام کیس بوگس ہیں اس لیے اب ملٹری ٹرائل کا کہا جارہا ہے۔ دریں اثنا عدالت نے چیئرمین تحریک انصاف کی 9 مقدمات میں 5 روز کی حفاظتی ضمانت منظور کر لی۔