اسلام آباد میں سیاسی پارہ اس وقت بہت ہائی ہے حکومت نے ہرحال میں لانگ مارچ کو روکنے کی تیاری کرلی ہے جبکہ پی ٹی آئی نے بھی اس بار پوری تیاری کے ساتھ اسلام آباد پر یلغار کا عندیہ دے رکھا ہے خان نے کل پشاور میں اپنے ٹائیگرز سے پیچھے نہ ہٹنے کا حلف بھی لی جس کے بعد لگتا یہی ہے کہ معاملہ لڑائی کیجانب جائے گا تاہم طاقتور حلقے، ایوان صدر اورہماری عدلیہ نے ہر چیز پر نظر رکھی ہوئی ہے اس لیے کافی امید یہی ہے کہ لانگ مارچ سے پہلے ہی او نٹ کسی نہ کسی کروٹ بیٹھ جائے گا –
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو ایک میٹنگ میں بریفنگ کے دوران بتا یا گیا کہ تحریک انصاف کے ممکنہ لانگ مارچ کے شرکا کی تعداد پندرہ سے بیس ہزار کے درمیان ہونے کا امکان ہے لیکن یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے ۔ رانا ثنا اللہ کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں پی ٹی آئی کے ممکنہ لانگ مارچ اور دھرنے پہ غور و خوص کیا گیا، ممکنہ لانگ مارچ اور دھرنے کو روکنے سے متعلق حکمت عملی کو بھی حتمی شکل دی گئی۔ وفاقی وزیر داخلہ کی ہدایت پراجلاس کی کارروائی کو ان کیمرہ رکھا گیا
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ لانگ مارچ کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کسی بھی صورت میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اجلاس میں لانگ مارچ کو لاجسٹک اور مالی معاونت فراہم کرنے والے افراد اور تنظیموں کے خلاف ایکشن لینے کی بھی منظوری دی گئی-لانگ مارچ کے اعلان کےبعد ریڈ زون کی حفاظت کے لیے اسلام آباد میں فوج کو بھی طلب کیاجائےگا
رانا ثنا اللہ کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ لانگ مارچ کے دوران اسلام آباد سمیت سندھ پولیس، رینجر اور ایف سی کی خدمات لی جائیں گی، اسلام آباد ، سندھ پولیس، ایف سی اور رینجرز کی 30 ہزار نفری کا بندوبست کیا جائے گا۔ تاہم انہیں پنجاب اور کے پی کے ، کی جانب سے اس بار کوئی سپورٹ نہیں ملے گی کیونکہ ان دونوں صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور ان صوبوں نے رانا ثنااللہ کو پولیس فورس دینے سے صاف انکار کردیا ہے