معروف اینکر پرسن نسیم زہرا نے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان ہاتھا پائی کا تہلکہ خیز دعویٰ کردیا۔ پاکستان کی ایک سینیر خاتون اینکر جن کا جھکاؤ واضح طور سے ن لیگ کی طرف ہے اپنے ویڈیو پراگرام میں ایک ایسی خبر سنا گئیں جس سے پورے پاکستان میں کھلبلی مچ گئی – نسیم زہرا کا کہنا تھا کہ خبروں میں آپ نے سنا ، چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کے چیمبر میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی موجو د تھےاور وہاں انہوں نے اپنی شکایات کیں ، اس دوران نا خوشگوار ماحول رہا ۔ نسیم زہرا نے دعویٰ کیا کہ اس کے بعد رات3 بجے جوڈیشل کالونی میں واقعہ پارک میؒں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس منصور علی شاہ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الا حسن موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بتا یا جا رہاہے کہ وہاں بہت زیادہ تلخ کلامی ہوئی اور بات ہاتھا پائی تک جا پہنچی، اس دوران قریب ہی رکھی ایک لکڑ ی کی چھڑی کا بھی استعمال کرنے کی کوشش کی گئی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی کافی غصہ آیا، پھر درمیان میں کچھ لوگ آئے اور فریقین کو ہاتھا پائی سے روک دیا۔ نسیم زہرا نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے ججز کی بات کر رہے ہیں، اس سے بد تر کچھ نہیں ہو سکتا، اگر چیمبر اور پارک میں ایسا ہوا تو اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ بنچز پر کیا ہو گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے بندیال کو ڈنڈوں سے مارا۔
نسیم زہرا سئینیر جرنلسٹ
👇👇👇👇@1Muslim786 @_Haroon79 @_Naveed786 @a__bd26 @Aadiiroy2 @AminaZareen1 @AmirHQureshi @farooqleghari_ @anamarraein @AbidMariner @BushraK44838685 https://t.co/6YcxckO5bx— Liaquat Hussain Raja (@L_H_Raja) April 14, 2023
اس افواہ پر سپریم کورٹ کا ردعمل بھی سامنے آگیا – سپریم کورٹ کے پی آر او آفس کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے معزز جج صاحبان کے درمیان جھگڑا ہونے کی خبریں قطعی طور پر غلط اور بے بنیاد ہیں۔ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔پریس ریلیز میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں کے بارے میں غلط رپورٹنگ قانون کی صریح خلاف ورزی ہے اور اس سے سپریم کورٹ سے غیرمطمئن عناصر کی جانب سے عدالت عظمیٰ اور اس کے معزز جج صاحبان کی عزت و وقار کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش ظاہر ہوتی ہے۔اب امکان یہی ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے پر ایکشن لے گی اور نسیم زہرا سے عدالت بلا کر جواب پوچھے گی اور ان سے ناک رگڑواکر معافی بھی منگوائے گی -اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کو نیشنل چینل سے آف ائر کردیا جائے –