کل پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کو عدالت کی جانب سےایک موقع تو اور مل گیا مگر عدالت عمران خان کے دیے گئے بیان سے خوش دکھائی نہیں دی ایسا لگ رہا ہے کہ اگلی پیشی پر عمران خان کو شائید اپنا بیان واپس لینا پڑے کیونکہ چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عمران خان اس ملک کے سابق وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ مقبول لیڈر ہیں جن کی بات قوم توجہ سے سنتی ہے اس لیے ان کو سوچ سمجھ کر بیان دینا چاہئے ان کے بیان کے بعد اگر عوامی ری ایکشن آجاتا اور جج زیبا کے گھر یا خاندان پر حملہ ہوجاتا تو عمران خان ہی مورود الزام ٹہرتے اس کے بعد آج پھر عمران خان کو عدالت طلب کیا گیا تھا کیس کی سماعت صبح 10 بجے کے قریب شروع ہوئی تھی لیکن اے ٹی سی کی جانب سے ضمانت کی درخواست کی سماعت کے لیے سابق وزیراعظم کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دینے کے بعد سماعت دوپہر تک ملتوی کر دی گئی۔
عمران خان سخت سیکیورٹی کے درمیان اسلام آباد اے ٹی سی پہنچے اور جج راجہ جواد عباس کی سربراہی میں کارروائی کا آغاز ہوا، جنہوں نے پراسیکیوٹر کو حکم دیا کہ کیس میں پہلی معلوماتی رپورٹ میں شامل کیے گئے چار نئے الزامات میں پی ٹی آئی چیئرمین کو عبوری ضمانت دی جائے۔نئی دفعات پر ضمانت 100,000 روپے کے مچلکے پر دی گئی کیونکہ عمران کے وکیل بابر اعوان نے اس بات کو یقینی بنایا کہ معزول وزیراعظم کو ان تمام دفعات کے لیے ضمانت دی گئی ہے جن کے تحت ان پر دہشت گردی کا الزام لگایا گیا تھا۔
سماعت کے آغاز پر اعوان نے جج سے کہا کہ ‘عمران خان آپ کے حکم پر کمرہ عدالت پہنچے ہیں ۔بابر اعوان کا نے سوال کیا کہ کیا عمران خان نے “کسی کو مارنے کی دھمکی دی تھی” اور ساتھ ہی کہا کہ ماضی میں وکلاء کو شہید کیا گیا لیکن ان کے کلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی، تاہم سابق وزیر اعظم کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ بنایا گیا ہے صرف ایک بات کرنے پر مقدمہ قائم کردیا گیا ۔
اس پر جج نے کہا کہ 12 ستمبر کو اگلی سماعت میں حتمی دلائل سنائے جائیں گے۔گزشتہ ماہ اسلام آباد میں اے ٹی سی نے اس مقدمے میں معزول وزیراعظم کی قبل از گرفتاری ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں یکم ستمبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ایف نائن پارک میں پی ٹی آئی کے جلسے کے دوران وفاقی دارالحکومت کی ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کو دھمکیاں دینے پر اسلام آباد کے صدر مجسٹریٹ علی جاوید کی شکایت پر عمران خان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
سماعت کے دوران سابق وزیراعظم کے وکیل اعوان عدالت میں پیش ہوئے جب کہ صحافیوں اور دیگر وکلا کے جوڈیشل کمپلیکس میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ عمران خان کو ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہونا پڑے گا، جس پر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد پولیس نے پی ٹی آئی رہنما کو آگاہ کیا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہےاس کے باوجود عمران خان عدالت خود پہنچے ہیں کیونکہ وہ عدالتوں کی عزت بڑھانا چاہتے ہیں ۔