حکومت نے عمران خان کے لانگ مارچ کے خوف سے اسلام آباد کے بہت سے علاقوں میں لانگ مارچ کی کال سے پہلےہی کنٹینر کھڑے کرد یے اور مختلف سڑکوں کو بھی بند کردیا جس پر پی ٹی آئی عدالت پہنچ گئی سماعت کے دوران ڈپٹی کمشنر اسلام اباد نے انتہائی غیر مناسب جواب دیاتو عدالت کے جج نے ان کی سرزنش بھی کی اور ا ن کو شرمندہ بھی کرڈالا –
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی کی سبراہی میں وفاقی دارالحکومت میں مختلف سڑکوں کی بندش سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی جس میں ڈپٹی کمشنر عرفان نواز پیش ہوئے۔عدالت میں ان سے پوچھاگیا کہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ لال مسجد کے باہر روڈ بند ہے،اس کی کیا وجہ ہے تو ڈپٹی کشنر اسلام آبادعرفان نواز نے عدالت کو آگاہ کیا کہ مولانا صاحب کا مدرسہ ہے ان کے شاگرد اکثر احتجاج کے طور پر سڑک بلاک کردیتے ہیں۔ڈپٹی کمشنر کے جواب پر جسٹس محسن اختر کیانی نے تعجب سے پوچھا تو پھر آپ نے کیا کیا ہے؟ اس کے جواب میں عرفان نواز نے عدالت کو جواب د یا کہ ہم ان سے مزاکرات کرتے ہیں۔ جس پر عدالت نے کہا کہ تو پھر افغانستان، بھارت اور اسرائیل سے بھی مذاکرات کر لیں وہ معاملہ بھی مزاکرات سے ہی حل ہو جائےتو کیا بات ہو ۔اس کے بعد عدالت نے انتظامیہ کو حکم دیا کہ اسلام آباد کے تمام راستے کھولیں
عدالت نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد پر اظہار برہمی کرتے ہوئے حکم دیا کہ جائیں اور جاکر لال مسجد کے باہر کی سڑک کھلوائیں اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے میلوڈی روڈ بھی کھولنے کا حکم دیا۔سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ آبپارہ والی سائیڈ سے بھی رستہ بند ہے،حساس مقام ہونے کے سبب اس کا نام نہیں لینا چاہتا، جس پر عدالت نے درخواست گزار کو بھئی شرمندہ کردیا عدالت کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر کے باہر تو اب کوئی رستہ بند نہیں آپ پنڈی سے ہیں اس لیے شائید آپ کو یہ بات معلوم نہیں کہ اچھے وقتوں میں وہ رستہ اسی عدالت کے حکم پر کھل گیا تھا اب وہ بھی نو گو ایریا نہیں ہے ۔
عدالت نے کہا کہ اپنے حقوق کے لیے پبلک اپنے نمائندوں کے پاس جائے، جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ قانون سب کے لیے ہو صرف چند لوگوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننا چاہیے۔وکیل کے بیان پر عدالت نے ریمارکس دئیے کہ ابھی تو چند افراد کے مطابق ہی چل رہا ہے حقیقت تو کچھ ایسی ہی ہے ، کیوں کہ عدلیہ بحال ہو کے بھی وکیلوں کے ہاتھو ں یرغمال �ہے ��۔