آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے اداروں کے حوالے سے سخت باتیں کی اور حکومت کو بھی وارننگ دی تو حکومت کے وزیرقانون بھی پریس کانفرنس کرنے آگئے اور انھوں نے ججز اور عداتوں کو بھی انھی حدود میں رہنے کا مشورہ دے دیا – وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ کا پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں مسنگ پرسن سے متعلق کافی ریمارکس آ رہے تھے، انتظامیہ کا کام ہے کہ لوگوں کی جان مال کی حفاظت کرے، مسنگ پرسن کا مسئلہ آج کا نہیں چار دہائیوں کا ہے، جس طرح کے ریمارکس رپورٹ ہوئے ہیں انہیں سن کر بہت تکلیف ہوئی ہے، شاعر احمد فریاد کی گمشدگی کا معاملہ ابھی عدالت میں ہے، اتنی سخت باتیں کہہ دینا یہ صیح بات نہیں ہے، ملک کی جو صورحال ہے اس میں عدالتوں سے اس طرح کے سنسنی خیز ریمارکس سامنے نہیں آنے چائیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر ملک میں واقعات ہوتے ہیں لیکن ہر ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرے، ہمیں تھوڑا تحمل پیدا کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں تحمل اور برداشت کے ساتھ اپنی ڈیوٹی سرانجام دینی ہے، اس طرح کی باتیں کرنا کہ کابینہ اور وزیراعظم کو سامنے لا کر بٹھا دیں گے یہ غیر مناسب بات ہے، ججز کا بھی ایک کوڈ آف کنڈکٹ ہے، اگر سب کچھ عدالتوں نے ہی کرنا ہے تو باقی اداروں نے پھر کیا کرنا ہے، عدالتیں ضرور حکم جاری کریں لیکن سخت بیانات نہ دیں ، تاہم انھوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اس وقت ملک کو چلانے کے لیے سب کو ساتھ مل کر بیٹھنا ہو گا۔تو یہی بات تو ہر جج ،صحافی ہر وکیل ہر سیاست دان حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو سمجھارہا ہے کہ بات چیت سے معاملات حل ہوتے ہیں قانون کی عمل داری سے ملک چلتے ہیں ، ڈنڈے کے زور سے نہیں –