آج سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت ہوئی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ نے اپیلوں پر سماعت کی ،جسٹس امین الدین ، جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بنچ کا حصہ ہیں،بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے۔
شہباز شریف نے 28 مئی کے روز ججز کو کالی بھیڑیں کہہ دیا تھا جس کا تزکرہ آج سپریم کورٹ میں ہوا اور سپریم کورٹ کے 2 ججز اس پر سخت برہم بھی ہوئے -نیب ترامیم کیس میں جسٹس جمال مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وزیر اعظم نے ہمیں کالی بھیڑیں کہا، انھوں نے سپریم کورٹ کے فیصلون کی بدولت پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہونے اور شریف فیملی کے کئی کیسز کے خاتمے کا بنا نام لیے طعنہ بھی دے دیا ان کا کہنا تھا کہ فیصلہ پسند آئے تو جج ٹھیک پسند نہ آئے تو جج کالی بھیڑیں بن جاتے ہیں؟باقیوں کا مجھے پتہ نہیں مگر میں اخبار،سوشل میڈیا اور ٹی وی بھی دیکھتا ہوں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ اٹارنی جنرل کہا گیا کہ کچھ کالی بھیڑیں ہیں،ہم کالی بھیڑیں نہیں کالے بھونڈ ہیں،اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہاکہ موجودہ ججز کے بارے میں ایسا نہیں کہا گیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ ہمیں سابق وزیر اعظم عمران خان اور حکومت سے بھی گلہ ہے،جب حکومت تبدیل ہوتی ہے تو مخالفین پر مقدمات بنا دیئے جاتے ہیں،دائیں سائیڈ والے بائیں سائیڈ جائیں تو نیب کو انکے خلاف استعمال کیا جاتا ہے،پارلیمنٹ اپنے مسائل خود حل کیوں نہیں کرتی،سپریم کورٹ میں ایسے مقدمات کیوں لائے جاتے ہیں،پارلیمنٹ سزا کم رکھے یا زیادہ خود فیصلہ کرے یہ اس کا کام ہے،سپریم کورٹ تو صرف قانون کے آئینی ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ لے سکتی ہے۔مگر لگتا ہے کہ پی ٹی آئی یا وکلاء تنظیم اس حوالے سے بھی ایک درخواست ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں لائے گی اور وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کیس کی درخواست کرے گی –