سپریم کورٹ ًمیں آج 10 سال قبل ہونے والے سانحے کی سماعت کا فیصلہ ہوگیا 24 دسمبر 2012 کو شاہ رخ نامی لڑکے نے شاہ زیب نامی نوجوان کو اس کی بہن کی شادی کے روز معمولی تنازعے پر گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا جس پر پورے پاکستان میں خوف اور غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی آج سپریم کورٹ نے شاہ زیب قتل کے دیگر ملزمان کو بھی بری کر دیا ، کیس کی سماعت جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی ۔
اس واقعے کے بعد پاکستانی قوم نے شدید ردعمل دیا اور یہ معاملہ میڈیا نے خوب اٹھایا تو ملزم کے خلاف عدالتوں نے سخت ترین فیصلہ دے کر ملزم کو سزائے موت کا حکم سنادیا
کیس چلتا رہا پھر شاہ رخ جتوئی کے والد نے مقتول شاہزیب کو صلح پر راضی کرلیا مگر پھر سندھ ہائی کورٹ نے سات برس قبل کراچی میں شاہ زیب نامی نوجوان کے قتل کے مقدمے میں مجرمان شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کی بریت کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ان کی سزائے موت کو عمرقید میں تبدیل کر دیا ہے۔
سزائے موت سنائے جانے کے بعد نومبر 2013 میں سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے مقدمے سے انسداد دہشت گردی کی دفعات ختم کر کے ماتحت عدالت کو مقدمے کی دوبارہ سماعت کی ہدایت کی تھی۔2017 میں شاہ زیب خان کے والدین نے قصاص اور دیت کے قانون کے تحت صلح نامے کے بعد ملزم شاہ رخ جتوئی کو معاف کر دیا تھا جس کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا تھا۔ مگر میڈیا کا دباؤ کام کرتا رہا اور یہ کیس چلتا رہا اور شاہ رخ کو ہائی کورٹ نے سزائے موت کو عمر قید کی سزا سے بدل دیا اور آج سپریم کورٹ نے اس کیس کا فیصلہ شاہ رخ جتوئی کے حق میں سنا کر اسے بری کردیا