لاپتہ افراد کے حوالے سے متضا د خبریں آ تی رہتی ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ سیکیوریٹی ایجنسیاں مشکوک افراد کو اٹھاتی ہیں ان سے تفتیش بھی کرتی ہیں اور اگر یہ معلوم ہوجائے کہ کوئی شخص وطن دشمن سرگرمیوں میں شامل رہا ہے تو اسے غائب بھی کردیتی ہیں اور اس کی جان بھی لے لیتی ہیں مگر اس کاروائی کا فائدہ شدت پسند تنظیمیں بھی اٹھاتی ہیں اور اپنے کارندوں کو گھر والوں کی نظروں سے اوجھل کرکے شور مچاتی ہیں کہ ان کے کارکنان کو اغوا کرلیا گیا ہے یا لاپتہ کردیا گیا ہے جس پر ان کے اہل خانہ خوف زدہ ہوجاتے ہیں اور میڈیا پر آکر فریاد کرتے ہیں اور حکومت اور ایجنسیوں کو برا بھلا کہتے ہیں-اسی طرح کا ایک واقعہ حالیہ دنوں میں پیش آیا جب ایک مزہبی تنظیم کے کارندے کو نامعلوم افراد 19 اگست کو اٹھا کر لے گئے اس کے اہل خانہ نے عدالت سے رجوع کیا آج اس کیس کی سماعت میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی جب اغوا ہوجانے والے شخص نے اپنے گھر والوں کو ہی اس لاپتہ ہونے کا ذمہ دار ٹھہرادیا
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے لاپتہ شہری کے والد محمد اکرم کی جانب سے بیٹے کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی تو پولیس نے منیب اکرم کو عدالت پیش کر دیا۔عدالت نے پوچھا تم کہاں تھے اور کس نے تمہیں اٹھایا تھا؟ جس پر بازیاب شہری نے بتایا کہ اسے 19 اگست کو رات گھر سے کچھ لوگوں نے اٹھایا جنہیں نہیں جانتا، انہوں نے لیپ ٹاپ اور موبائل لے کر چیک کیا، دھمکیاں دیں اور کہا کہ آئندہ سوشل میڈیا استعمال نہیں کرنا ۔
بازیاب شہری کا کہنا تھاکہ ان نامعلوم افراد نے مجھے سختی سے کہا کہ فیس بک اور ٹوئٹر آج کے بعد استعمال نہیں کرنا اور پھر چھوڑ دیا جس کے بعد میں ڈر کی وجہ سے گاؤں چلا گیا اور موبائل بند کردیا، اب یکم اکتوبر کو گھر واپس آیا۔ عدالت نے پوچھا اگر چھ گھنٹے بعد آپ کو چھوڑا تو گھر کیوں نہیں بتایا؟ جس پر شہری نے کہا گھر والوں کو بتاتا تو گھر والے واپس لے آتے تو نجھے موبائل فون آن کرنا پڑتا اور یہ لوگ پھر مجھ پر غیر قانونی کام کرنے کا شک ظاہر کرتے اور مجھے دوبارہ اٹھائے جانے کا خوف تھا اس لیے میں نے ایسی حرکت کی ۔