پی ڈی ایم حکومت کے آخری دنوں میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایوانوں سے دھڑا دھڑ بل منظور ہونے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ ارکان پارلیمنٹ کا مؤقف ہے کہ بلز کی کاپیاں بھی ارکان کو نہیں دی جا رہیں۔صرف 2 دن کے کم ترین عرصے میں 53 بل پاس کرلیے گئے -اس پر پیپلز پارٹی والے بھی حکومت سے ناراض ہوگئے -پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے تو بل کی کاپیاں ہی پھاڑڈالیں اور اپنی اتحادی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا –
بہت سے ارکان پارلیمنٹ نے شکایت کی کہ نئی قانون سازی کے بلز متعلقہ کمیٹیوں کو بھی نہیں بھیجے جا رہے اور نئی قانون سازی پر ایوان میں بحث بھی نہیں کرائی جا رہی۔ممبران اسمبلی کی جانب سے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جلد بازی میں کی گئی قانون سازی کے منفی اثرات گمرتب ہوں گے اور حکومت جانے کے بعد میڈیا پر ان کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا – ایک روز میں قومی اسمبلی نے ایک درجن سے زائد بل منظور کیے اور بعض شقوں میں تو ایسے بل بھی پاس کروائے گئے جو ایجنڈے پر موجود ہی نہیں تھے۔جمعرات 27 جولائی کو قومی اسمبلی نے 24 بل منظور کیے جبکہ جمعہ 28 جولائی کو قومی اسمبلی نے 29 بل منظور کیے، گزشتہ روز بھی قومی اسمبلی سے 6 بل پاس کروائے گئے ا س بے یقینی کی فضا میں حکومتی اراکین میں جھگڑا ہو گیا جس کی وجہ سے اسپیکر کو قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنا پڑ گیا۔
نگران حکومت کی مدت کے حوالے سے بھی ایک بل خاموشی سے پاس کرلیا گیا جس کا ایجنڈا نا تو وقت پر جاری کیا گیا اور نا ہی اس کا مسودہ ارکان کو فراہم کیا گیا تھا، اس کے علاوہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ بل بھی ایجنڈے میں شامل نہیں تھا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ میں ترامیم کے بل بغیر بحث کے منظور کروائے گئے۔
اسی طرح سینیٹ کے 24 جولائی سے جاری اجلاس میں بھی اب تک 13 بل منظور کروائے جا چکے ہیں -لگتا یہی ہے کہ حکومت کے رخصت ہونے کے بعد بہت سے بل عدالت میں چیلنج ہوں گے اور ان پر فیصلہ بھی آئے گا –