بلوچستان میں حکومت اور اس کے اتحادیوں میں سنگین اختلفات پید اہوگئے ہیں اور اب بتایا جارہا ہے کہ اختر مینگل نے اپنی جماعت کا اجلاس طلب کرلیا ہے جس میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ مینگل گروپ حکومت کا اتحادی رہے گا یا نہیں – ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق حکومت کے 2 اتحادی حکومت سے ناراض ہوگئے اور اطلاعات ہیں کہ ان جماعتوں نے شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں شرکت سے معزرت کرلی دونوں جماعتوں کو اعتراض ہےکہ حکومت نے ان کے ساتھ کیے وعدے پورے نہیں کیے اور ریکوڈیک کے معاملے پر بھی ان کی جماعتوں کو اعتماد میں لیے بغیر فیصلے کر لیے گئے –
اسی طرح کی صورتحال بلوچستان اسمبلی میں بھی دیکھی گئی، جہاں قانون سازوں نے معاہدے کے حق میں قرارداد کی منظوری پر حکومت پر تنقید کی۔ بی این پی ایم کے رکن صوبائی اسمبلی نے قرارداد کو بلوچستان کے عوام کے حقوق غصب کرنے کی کوشش قرار دیا۔جے یو آئی ف اور بی این پی ایم نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس منصوبے کے بل کے خلاف ہیں کیونکہ انہیں اس معاملے پر اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ تاہم حکومت نے اتحادیوں کو یقین دلایا کہ ان کے تحفظات درست ہیں اور جلد ضروری ترامیم کی جائیں گی۔
اس پر وزیر اعظم شہباز شریف نے ان پارٹیوں کے سربراہان سے مزاکرات کے لیے کہا کہ حکومت پاکستان ریکوڈک پراجیکٹ سمیت تمام سرمایہ کاری کے منصوبوں میں سرمایہ کاروں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے گی اور ان سے کیے گئے تمام وعدے پورے کیے جائیں گے۔کابینہ کو بتایا گیا کہ حتمی معاہدوں پر قانونی رائے کے لیے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔ عدالت نے 9 دسمبر کو اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ تنظیم نو کا عمل شفاف تھا۔کابینہ کو بتایا گیا کہ غیر ملکی سرمایہ کاری بل 2022 کے حوالے سے سپریم کورٹ کی رائے پہلے ہی لی جا چکی ہے ۔اس سلسلے میں بعض قانونی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کابینہ کی پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ کمیٹی میں وزیر قانون اعظم تارڑ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر تجارت سید نوید قمر اور وزیر اقتصادی امور ایاز صادق شامل تھے۔