حکومت سنجیدگی دکھائے: ارشد شریف کیس کی آیف آئی آر پر عدالت برہم

کل سپریم کورٹ نے عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ارشد شریف کیس کا ساموٹوایکشن لیا تھا مگر سوشل میڈیاپر یہ بات گردش کررہی ہے کہ پولیس نے والدہ ارشد شریف کی ایف آئی آر کی بجائے کوئی اور ایف آئی آر درج کی ہے جس پر ایک بار پھر شور مچ گیا ہے کہ یہ کیس کو خراب کرنے اور اصل مجرمان کو بچانے کے لیے کیا گیا ہے سپریم کورٹ بھی اس کیس پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور اسی لیے آج سپریم کورٹ نے بھی اس آیف آئی آر کے حوالے سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا

سپریم کورٹ میں ارشد شریف قتل کی تحقیقات سے متعلق ازخودنوٹس کیس کی سماعت ہوئی،چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے سماعت کی،ارشد شریف کی والدہ، سیکرٹری داخلہ و اطلاعات، ڈی جی ایف آئی اے عدالت میں پیش ہوئے،ایڈیشل اٹارنی جنرل عامر رحمان، آئی جی اسلام آباد بھی عدالت میں پیش ہوئے ۔ ازخودنوٹس کیس میں جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ تنبیہ کر رہاہوں، انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے، حکومت بھی سنجیدگی سے لے،عدالت صرف آپ کو سننے کیلئے نہیں بیٹھی۔
وزارت داخلہ کی جانب سے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی، اس کے علاوہ تھانہ رمنا میں درج قتل کی ایف آئی آر کی کاپی بھی عدالت میں پیش کی گئی۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ارشد شریف کی والدہ کا موقف بھی سنیں گے، اسلام آباد کے ایک نامور صحافی نے شکایت کہ پولیس نے ارشد شریف کے اہلخانہ کیساتھ درست رویہ نہیں اپنایا اور ان کی رائے بھی نہیں سنی گئی اوریہ ایف آر وہ نہیں جو ان کے اہل خانہ کٹوانا چاہتے ہیں ۔

 

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ مبینہ طور پر فائرنگ کرنے والے کون ہیں؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ فائرنگ کرنے والے کینیا پولیس کے وہ اہلکار ہیں جو ناکے پر موجود تھے ۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ فائرنگ کرنیوالوں نے پاکستانی ٹیم کو کیا بتایا رپورٹ میں نہیں لکھا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ غیرملکیوں کیخلاف مقدمہ درج ہو سکتا ہے یا نہیں ، جائزہ لینا ہوگا،انکوائری رپورٹ ریکارڈ کا حصہ بنے گی ۔
جسٹس مظاہرنقوی نے کہا کہ تنبیہ کر رہاہوں، انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے، حکومت بھی سنجیدگی سے لے،عدالت صرف آپ کو سننے کیلئے نہیں بیٹھی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی، آئی بی، ایف آئی اے افسر شامل کرنے کی منظوری دی گئی۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ رپورٹ کے مطابق مقدمہ میں نامزد ملزموں کے اہم شخصیات سے رابطے ہیں ، حکومت کا کام ہے ایسے افسران لگائے جو آزادانہ تحقیقات کر سکیں ۔ عطا بندیال کا کہنا تھا کہ یہ بہیمانہ قتل ہے، قتل کے بنیادی شواہد کینیا میں ہیں ، معاملے پر کینیا کی حکومت سے رابطہ کیا جائے ، تحقیقات کرنا پروفیشنل لوگوں کا کام ہے ، قتل میں ملوث شوٹرز نے تحقیقات میں کیاکہا؟فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کاکام قابل ستائش ہے ۔

Related posts

عمران خان کی دونوں بہنوں کے خلاف عدالتی فیصلہ محفوظ

جو ججز کے خلاف مہم چلائے گا اڈیالہ جیل جائے گا؛ فل کورٹ کا فیصلہ

میں عمران خان کو ویڈیو لنک پر دیکھنا چاہتا ہوں ؛ اے ٹی سی جج کا حکم