ایک زائر نے اپنا منفرد مشاہدہ بتاتے ہوئے کہا کہ نجف میں حضرت علیؑ کے روضے کی زیارت کے لیے اگر آپ جائیں توآپکو وہاں کتب خانے اور طالب علم ہی چلتے پھرتے نظر آئیں گے۔
ایک مسلم عالم علامہ احسان الہی ظہیرؒ کے بیٹے علامہ ابتسام الہی ظہیر نے ایک پروگرام میں یہ کہا کہ جب آپ حضرت علیؑ کے روضے میں داخل ہوتے ہیں تو اندر سے دلیر ہو جاتے ہیں”۔

آپؑ کے روضہ مبارک پر جو شخص صاف اور ستھری نیت کے ساتھ جاتا ہے تو یقیناََ صاحبِ مزار اسے اسکی طلب کے مطابق عطا فرماتے ہیں۔
اور پھر روضہ بھی جنابِ علیؑ کا ہو کہ جن کے بارے میں اللہ فرماتا ہے کہ بیشک مومن تو وہ ہیں جو حالتِ رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔
امام حسینؑ نے اسلام کے لیے قربانی دی اور ان نبیؐ کے نواسے ہوتے ہوئے کہ جن کے لیے جبرائیلؑ نے آ کر فرمایا تھا کہ اگر آپؐ حکم دیں تو تو میں دو پہاڑوں کو ملا دوں اور یہ قوم جو آپؐ کو زچ کرتی ہے یہیں تباہ جائے ، آپؑ نے کسی آسمانی طاقت سے مدد نہیں مانگی۔
بلکہ انہی بہتر نفوس کے ساتھ میدانِ جنگ میں اپنا کنبہ قربان کر دیا۔صرف اس لیے کہ آپؑ کے ناناؐ کا دین بچ جائے۔

زائر کا کہنا تھا کہ جب آپ حضرت امام حسینؑ کے روضے پر جاتے ہیں تو آپکو مظلومیت محسوس ہوتی ہے۔ آپکو اندازہ ہوتا ہے یہ وہ شخصیت ہیں کہ جن کے ساتھ تاریخ کا سب سے بڑا ظلم کیا گیا مگر وہ اس وقت کے سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بننے سے انکار کرتے رہے اور انہوں نے ہمیشہ اپنی زبان کو انکار کی تلوار کی نوک پر رکھا اور دکھایا کہ ظلم کے آگے ڈٹ جانا چاہیے۔
حضرت علی ؑ کا فرمان ہے کہ فتنے کے دور میں خود کو ایسا بنا لو کہ جیسے اونٹنی کا بچہ ہوتا ہے، کہ نہ تو تم پر سواری کی جا سکے اور نہ تمہارا دودھ دوہا جا سکے۔ یعنی کسی بھی طرح تمہیں استعمال نہ کیا جا سکے۔
امام حسینؑ نے ایک مردِ آہن کی طرح جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بلکہ مردِ آہن کا لفظ بھی آپؑ ہی کی شخصیت سے مستعار ہے۔
اسی طرح زائر نے بتایا کہ جب آپ حضرت عباسؑ کے روضے پر جاتے ہیں تو وہاں سے آپکو بوئے وفا آتی ہے اور آپکو رعب و دبدبہ محسوس ہوتا ہے۔
حضرت عباسؑ جتنے جری سپہ سالار تھے وہ شجاعت جو حضرت علیؑ کا خاصہ تھی ہو بہو آپ ؑ میں نظر آتی تھی۔

اسی کو نبھایا ہے جناب عباسؑ نے اور اپنے بھائی اور آقا جنابِ حسینؑ کا ساتھ آخری دم تک دیا۔
اس لیے بزرگوں اور امامین و معصومین کے مزاروں کی زیارت کے لیے لوگ جاتے ہیں تا کہ وہاں سے زندگی گزارنے کے لیے کامل جذبہ لے کر لوٹیں۔