حضرت ابراہّیم ّ ،حضرت اسماعیل ّ اور حضرت حاجرہ کی شیطان پر لعنت کا واقعہ

حضرت اسماعیل ؑ علیہ السلام کے والد بزرگوار حضرت ابراہیم ؑ نے مسلسل تین راتوں تک ایک ہی خواب دیکھا کہ وہ اپنے لخت جگر کو اللہ کی راہ میں قربان کررہے ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام ے یہ خواب اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو سنایا۔۔۔ فرماں بردار بیٹے نے عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے اور پیغمبر ہیں آپ ؑ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل بجا لائیں۔ انشاء اللہ آپ ؑ مجھے صابراور شاکر بندوں میں سے پائیں گے۔
جب حضرت ابراہیم اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے نکلے تو شیطان نے ان کو بہکانے کا منصوبہ بنایا ابلیس ایک باریش بوڑھے کا روپ دھار کر حضرت ابراہیم ؑ کے پاس آیا اور بولا آپ عمر رسیدہ ہیں اور اسماعیل ؑ آپ کی اکلوتی اولاد ہے اگر آپ نے اپنے بیٹے کو مار ڈالا تو آپ کی نسل نہیں بڑھے گی یہ ظلم کیوں کرتا ہے اس کی ماں رو رو کر جان دے دے گی ۔ بوڑھے کی بات سنتے ہی حضرت ابراہیم نے لاحول پڑھا اور جواب میں فرمایا!’’اسماعیل ؑ سے میرا تعلق اللہ کے لئے ہے یہ تعلق اس بنیاد پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی پیدائش کے لئے مجھے وسیلہ بنایا ہے۔ بیٹا میرے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے مالک و مختار کل ہیں وہ جب چاہیں جیسا چاہیں حکم دیں۔ ہم سب اس کے فرمانبردار ہیں۔‘‘شیطان نے پوچھا کہ آپ نے مجھے کیسے پہچانا تو خلیل اللہ نے فرمایا جو کسی بھی شخص کو اللہ کے حکم سے روکے وہ شیطان کے علاوہ بھلا اور کون ہو سکتا ہے -یہ جواب سن کر شیطان وہان سے بھاگ نکلا مگر
اس پر شیطان کو چین نہ آیا کیونکہ اس خبیث نے اللہ سے جنت سے نکلتے وقت کہا تھا کہ وہ تیرے خاص بندوں کو راستے سے بھٹکائے گا اور آج تو حضرت ابراہیمّ وہ کام کرنے جارہے تھے جو توحید پرستوں اور مومنوں کو قیامت تک یاد رکھنا تھا اس لیے اب اس نے یہ جان کر کہ ماں تو ماں ہی ہوتی ہے اس کو بہکایا جائے اس لیے وہ بڑے یقین کے ساتھ حضرت حاجرہ علیہ السلام کے پاس آگیا -دروازے پر آکر بولا کیا تم جانتی ہو ابراہیم کیا کرنے کے لیے اپنے بیٹے کو ویرانے میں لے جارہے ہیں ؟ ابلیس نے کہا! میں نے سنا کہ وہ تیرے کڑیل جوان بیٹے کی گردن پر چھری چلانے والے ہیں میں تیرا ہمدرد ہوں میری بات مان فورا گھر سے نکل اپنے بچے کی جان بچا میں نے سنا ہے کہ وہ کہہ رہا تھا کہ ’’ رب کا یہی حکم ہے کہ اپنے بیٹے کو قربان کردوں ۔‘‘ یہ سن کر بی بی ہاجرہؓ نے بھی زور دار آواز میں لاحول ولا قوہ پڑھا اور بولیں چل بھاگ شیطان مردود دفع ہوجا یہاں سے ’’اگر یہ میرے رب کا حکم ہے تو میں اس کی رضا پر راضی ہوں۔‘‘شیطان اپنے روپ اصل میں آیا اور کہا کہ میں نے ابراہیم کو بہکایا وہ مجھے پہچان گیا وہ تو نبی تھا یہ بات تو سمجھ آئی مگر تو نے کیسے پہچان کر لاحول پڑھ دیا
اس پر حضرت حاجرہ بولیں کہ جو نبی کی عترت و غیرت کو اس کے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنے کا مشورہ دے وہ مردود شیطان کے سوا کون ملعون ہوسکتا ہے ؟-

ابلیس وہاں سے بھی نامراد ہوکر واپس چلا گیا لیکن اس نے تہیہ کررکھا کہ ہر حال میں ابراہیم علیہ السلام کو اس امتحان میں پورا اترنے سے روکے گا اس لیے اپنی ناکامی کو کامیابی میں تبدیل کرنے کے لئے اب وہ مردود و ملعون حضرت اسماعیلّ ؑکے پاس گیا ۔اس نے کہا کہ تیرا باپ تیری جان لینے کے لیے چھری لے کر نکلا ہے تیری تو جوانی کی عمر ہے اپنے باپ کی باتوں میں آکر اپنی جوانی کیوں برباد کررہا ہے یہاں سے بھاگ جا اپنی جان بچا اس پر اللہ کے نبی حضرت اسماعیل ؑ نے لاحول پڑھی تو ابلیس نے تڑپ کر پوچھا تیرا باپ نبی تھا اس کی بیوی نبی کی زوجہ تھی ،زمانہ دیکھ چکی تھی اچھے برے کی پہچان تھی ،عبادت گزار اور پرہیز گار تھی نبی کے ساتھ رہ کر اللہ کے نزدیک تھی اس نے بھی پہچان لیا تو تو بچہ تھا تجھے کیسے علم ہوا کہ میں ابلیس ہوں تجھے بہکانے آیا ہوں اس پر حضرت اسماعیل علیہ السلام گویا ہوئے اور فرمایا کہ ’’میرے اللہ کا جو حکم ہے میں اس پر راضی ہوں۔ میرے والد بزرگوار اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہیں۔ ملائکہ مقربین کے سردار جبرائیل ؑ ان کے پاس وحی لے کر آتے ہیں۔ ان کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہے۔ مجھے یقین ہے کہ انبیاء کے خواب سچے ہوتے ہیں۔ ‘‘اور جو ان کو جھٹلائے وہ لعنتی تو شیطان ہی ہوسکتا تھا ؛اس پر شیطان وہان سے دفع ہوا اور حضرت ابراہیم اپنے بیٹے کو لیکر مقتل گاہ کی جانب بڑھے

قربان گاہ کی طرف جاتے ہوئے ابلیس نے کیونکہ تین بار ان کے ارادے میں دخل انداز ہونے کی کوشش کی اس لیے حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ نے لعنت کی غرض ے سفر کے دوران 3 بار شیطان پر سنگ باری کی۔یہی وہ سنت ہے جس کو حجاج کرام ہر سال حج کے موقع پر دہراتے ہیں اور یہ سنت ’’رمی جمار‘‘ہے۔ باپ بیٹے دونوں جب منیٰ کے مقام پر پہنچے تو حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت اسماعیل ؑ کو پیشانی کے بل زمین پر لٹا دیا اور گردن پر چھری پھیردی۔

حضرت ابراہیم ؑ کی تابعداری اور حضرت اسماعیل ؑ کی فرمانبرداری بارگاہ ایزدی میں مقبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل ؑ کو ذبح ہونے سے بچالیا اور ایک مینڈھا قربان کرکے خواب پورا کردیا۔ یہی وہ عظیم قربانی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کیلئے ایثار کا عملی نمونہ بنادیا ہے۔

Related posts

محرم الحرام میں 7 سے 10 محرم تک ڈبل سواری پر پابندی کافیصلہ

فلسطینی نژاد خاتون ریما حسن یورپی پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوگئیں

آیا صوفیہ کے بعد ترکیہ کا ایک اور چرچ مسجد میں تبدیل