ججز شکایات پر سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ کی پہلی سماعت

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی کی کمیشن کی سربراہی سے معزرت کے بعد 6 ججز کے خط کا معاملہ ایک بار پھر سپریم کورٹ پہنچا تو اس پر چیف جسٹس نے 7 رکنی بینچ بنا کر آجپہلی سماعت کی -آج ایک بار پھر قاضی صاحب سوشل میڈیا سے ناراض دکھائی دیے -تاہم انھوں نے اس سماعت کو بھی اوپن کورٹ میں رکھا جو قابل ستائش عمل ہے -سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کے خط پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کے ، دوران سماعت چیف جسٹس نےریمارکس دیئے کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے ہماری زیرو برداشت پالیسی ہے، عدلیہ کی آزادی پر کسی قسم کا حملہ ہوگا تو سب سے پہلے میں اور میرے ساتھی کھڑے ہوں گے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر شامل ہیں۔سماعت کے آغاز پر وکیل حامد خان نے کہا ہم نےلاہورہائیکورٹ بارکی طرف سے ایک پٹیشن کل دائر کی ہے، لاہور بار سب سے بڑی بار ہے جس نے پٹیشن دائر کی ہے جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا حامد خان آپ سے زیادہ قانون کون جانتا ہے، اب وہ زمانےچلے گئے جب چیف جسٹس کی مرضی ہوتی تھی، اب تین رکنی کمیٹی ہے جو کیسز کا فیصلہ کرتی ہے، نہ کمیٹی کو عدالت کا اختیار استعمال کرنا چاہیے نہ عدالت کو کمیٹی کا اختیار استعمال کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کمیٹی کو عدالت اور عدالت کو کمیٹی کے کام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، آج کل ہم گوبلز کا زمانہ واپس لا رہے ہیں ۔چیف جسٹس نے وکیل حامد خان سے استفسار کیا آپ نے کوئی درخواست دائر کی ہےتو کمیٹی کو بتائیں، پٹیشنز فائل ہونے سے پہلے اخباروں میں چھپ جاتی ہیں، کیا یہ پریشر کیلئے ہے؟ میں تو کسی کے پریشر میں نہیں آتا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اب وکیل کہہ رہے ہیں ازخود نوٹس لیں، جو وکیل ازخود نوٹس لینے کی بات کرتا ہے اُسے وکالت چھوڑ دینی چاہیے۔ان کا کہنا تھا جمہوریت کا یہ تقاضا ہے کہ آپ مان لو کہ مخالف جیت گیا ہے، میں انفرادی طورپر وکلا سے نہیں ملتا، بارکے نمائندے کےطورپر ملتا ہوں۔اس کے بعد انھوں نے پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کونسل کے صدور سے بھی گفتگو کی –

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ججز کو یقین ہونا چاہیے کہ ان کو کوئی خطرہ نہیں ہے ، ایسا نہیں کہ اگر کوئی شکایت ہو تو وہ ججز کے گلے پڑ جائے ، خط میں سپریم جوڈیشل کونسل کا ذکر ہے ، اس کا اختیار واضح ہے ، ہائیکورٹ کے ججز کا خط سپریم جوڈیشل کونسل کے نام ہے اور اس کے باقی ممبر ز بھی ہیں ۔ہم ججز کے خط کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں، پریشر آپ کو سینئر یا جونیئر سے بھی آ سکتا ہے ، کلیگ سے ، فیملی سے دوستوں سے بھی آ سکتا ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک نئی وبا پھیلی ہوئی ہے ، سوشل میڈیا، سوشل میڈیا نئی وبا ہے اسے بھی پریشر کے زمرے میں لیا جا سکتا ہے ۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت عدلیہ کی آزادی کیلئے ہر ممکن معاونت فراہم کرے گی ،عدلیہ کی آزادی ریاست اور شہریوں کے درمیان سماجی معاہدہ ہے ، یقین دلاتاہوں وفاقی حکومت کوئی ایسا عمل نہیں کرے گی جس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو۔چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مجھے آج تک کسی ہائیکورٹ یا کسی اور جج نے شکایت نہیں کی کہ میرے کام میں مداخلت کی جارہی ہے ، جو دوسروں کے کرنے کے کام ہیں وہ ہم ان سے کرائیں گے ، جو ہمارے کام ہیں وہ ہم کریں گے ، میں کسی اور عدالت کی توہین عدالت کا اختیار استعمال نہیں کر سکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دو چیزیں ہیں ، انکوائری، حقائق سامنے لانا، یہ دو کام کون کرے ہم چاہتے تھے وہ تحقیقات کرے جو معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہیں ، اب معاملے کی تحقیقات کون کرے گا یہ سب سے بڑا سوال ہے ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جو لوگ چلے گئے ان پر انگلی اٹھانا نہیں چاہتا، صرف بات کرنا چاہتاہوں، چھ ججز کے خط میں کہا گیا ہے عدلیہ کے ادارے کے جواب کی ضرورت ہے ، فوری وزیراعظم سے ملاقات کی ، فل کورٹ کی دومیٹنگز ہوئیں ، عدالت میں ہم وزیراعظم کو نہیں بلا سکتے انہیں آئین میں استثنیٰ حاصل ہے ، میں نے وزیراعظم کو بلا کر ملاقات کی ، واضح پیغام دیا کہ عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں ہوگا، ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم کسی کی عزت اچھالیں، ایک طرف پالیمان ، دوسری طرف صدر اور تیسری طرف حکومت ہے ، ہم سب کا احترام کرتے ہیں اور سب سے احترام کی توقع بھی کرتے ہیں، غلط کام کریں گے تو ہم فورا پکڑ لیں گے ۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت کے چیف جسٹس کے خلاف کچھ عرصہ قبل ایک ریفرنس آیا تھا ، ریفرنس میں سپریم کورٹ سے خارج ہو گیا تھا ، اس وقت کے وزیراعظم نے کہا کہ ان سے غلطی ہوئی تھی جو کرائی گئی تھی ، کیا آپ نے معلوم کیا وہ غلطی کس نے کی تھی اور کیوں کی تھی، پوچھیں اس وقت کے وزیراعظم سے وہ کیا تھا اور کیوں تھا، کیا وہ معاملہ اس عدالت میں مداخلت کا نہیں تھا. چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم سات ججز اس لیے بیٹھے ہیں کیونکہ صرف سات ججز ہی اسلام آباد میں دستیاب تھے ، دیگر ججز اسلام آباد میں نہیں تھے اس لیے فل کورٹ نہیں بیٹھا، کچھ ججز لاہور اور کچھ کراچی میں ہیں، ہو سکتا ہے کہ آئندہ فل کورٹ بیٹھے ، تاہم ابھی اس حوالے سے سپریم نے کوئی فیصلہ نہیں کیا لیکن قاضی نے یہ بتادیا ہے کہ 29 اپریل کے بعد سے روزآنہ کی بنیاد پریہ کیس چلے گا –

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم ہائیکورٹس کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہ رہے ، ہائیکورٹ کے پاس اپنی پاور ہے و ہ اپنی پاور استعمال کریں ناں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم کب تک ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھائیں گے ، یہ ملک آپ کا بھی ہے اور میرا بھی ،ہم آگے چلتے ہیں ،بہتری کی طرف چلتے ہیں، ہر موڑ پر سنجیدگی ہے ، کچھ نئی پٹیشنز آ رہی ہیں. سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کیس کی سماعت 29 اپریل تک ملتوی کر دی ۔

Related posts

عمران خان کی دونوں بہنوں کے خلاف عدالتی فیصلہ محفوظ

جو ججز کے خلاف مہم چلائے گا اڈیالہ جیل جائے گا؛ فل کورٹ کا فیصلہ

میں عمران خان کو ویڈیو لنک پر دیکھنا چاہتا ہوں ؛ اے ٹی سی جج کا حکم