ججز سب کو جیل بھیجتے رہے کوئی جج آج تک جیل نہیں گیا ؛سہیل وڑائچ کا گلہ

پاکستان کے معروف صحافی سہیل وڑائچ نے اخبار میں بہترین کالم لکھا جس میں انھوں نے عوام کے دل کی ترجمانی کی اور وہ بات کہ دی جو عوام اپنی عدلیہ اور دوسرے اداروں سے کہنا چاہتی تھی -سہیل وڑائچ نے کہا کہ

می لارڈ برا نہ منائیں سیاستدانوں، جرنیلوں اور صحافیوں کا احتساب ہو سکتا ہے تو ججوں کا احتساب بھی ہونا چاہیے، سیاست دان پر کرپشن کا جھوٹاکیس بھی آئےتو منصف اسے برسوں لٹکا دیتے ہیں۔
عدالت کی بات نہ ماننے پر بھی وزیر اعظم کو رگڑا لگایا جاتا ہے شاید ہی کوئی خوش قسمت ہو جو جیل جانے سے بچا ہو ۔ پوری تاریخ میں ایک بھی جج جیل نہیں گیا۔
انہوں نے عدلیہ سے گلہ کیا کہ اگر بے انصاف منصفوں کے فیصلوں پر عمل نہ کیا جائے تو انصاف والے فیصلوں پر عمل بھی مشکل ہو جائے گا ۔
سقراط نے غلط فیصلے پر سر جھکا کر زہر پی لیا اور اف تک نہ کی ذوالفقار علی بھٹو بھی ضیا ءالحق کے چمچہ منصفوں کو می لارڈ کہتے کہتے پھانسی پر جھول گئے۔
انھوں نے ایک اور دانشور کے مشہور قول کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ دنیا کی سب سے زیادہ بڑی ناانصافیاں انصاف کے ایوانوں میں ہوئی ہیں، تضادستان کی تاریخ تو ایسے فیصلوں سے بھری پڑی ہے-
جسٹس منیر کے فیصلوں سے لیکر جسٹس بندیال تک مصلحتوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے –
یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ غلط ہے کمپرامائزڈ عدلیہ نے جمہوریت ،آئین اور قانون کاساتھ دینے کی بجائے مارشل لاء اور آمروں کاساتھ دیا ہے۔
آمروں نے اسمبلیاں توڑیں تو ججوں نے اسے جائز قرار دیا ،جرنیلوں نے مارشل لاءلگائے تو ججوں نے انہیں جائز قرار دیا،
وزیر اعظموں کو جیل بھیجا گیا تو ججوں نے انہیں رہا کرنے کی بجائے اور انہیں انصاف مہیا کرنے کی بجائے سزائیں سناڈالیں –
ججوں کی کرپشن کا ریفرنس آئے تو سب جج اکٹھے ہو کر اسے رد کر دیتے ہیں ،سیاست دان پر کرپشن کا جھوٹاکیس بھی آئےتو منصف اسے برسوں لٹکا دیتے ہیں –
انھوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ وزیر اعظم اتنا عرصہ اقتدار میں نہیں رہتا جتنا عرصہ اسے جیل کی ہوا کھانا پڑتی ہے۔
پوری تاریخ میں ایک بھی جج جیل نہیں گیا ہاں ججوں نے تقریباً ہر سیاست دان کو جیل بھیجنے میں مدد و تعاون کیا ہے۔
سہیل وڑائچ نے �کہا کہ ہماری عدلیہ نے من مانی تشریح اور اختراعات کرکے ججوں کو مقدس اور آئین جمہوریت اور سیاست کو قربانی کا بکرا بنا لیا ۔
افتخار چودھری ہوں جسٹس کھوسہ ہوں، جسٹس ثاقب نثار ہوں یا جسٹس بندیال انہوں نے آئین، جمہوریت اور پارلیمنٹ کی مضبوطی کی بجائے غیر جمہوری روایات کو مضبوط کیا –
سچ تو یہ ہے کہ آج ملک میں جو سیاسی ، معاشی اور آئینی بحران ہے اسکی تشکیل میں ان ججوں کا کلیدی کردار ہے ۔
آخر میں سہیل وڑائچ نے آج کے حاضر سروس ججز سے درخواست کی کہ می لارڈ!!! آپ کا کام مشکل سہی مگر ممکن ہے تاریخ بنایئے، تعصب، نفرت اور محبت، لالچ اور منفعت سے نکل کر فیصلے کریں۔

Related posts

عمران خان کی دونوں بہنوں کے خلاف عدالتی فیصلہ محفوظ

جو ججز کے خلاف مہم چلائے گا اڈیالہ جیل جائے گا؛ فل کورٹ کا فیصلہ

میں عمران خان کو ویڈیو لنک پر دیکھنا چاہتا ہوں ؛ اے ٹی سی جج کا حکم