پاکستان میں گزشتہ سالوں میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جس میں توہین مزہب یاتوہین رسالت کا الزام لگا کر غیرمسلموں کی جان لے لی گئی اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہمیں اپنی جانوں اور اولاد سے کہیں زیادہ عزیز اور پیارے ہیں -آپﷺ کے بارے میں کوئی مسلمان توہین تو بہت دور کی بات آپ ﷺ نے فرمایا کے علاوہ کوئی لفظ جیسے “وہ بولے” انھو ں نے کہا” بھی برداشت نہیں ہوتا تو مگر ہمیں اپنے پیارے پیغمبرؐ کی سیرت کو نہ صرف دیکھنا بلکہ اس پر عمل کرنا ہے اس لیے اس بات کی یقین ہونا چاہیے کہ صرگ گنہ گار کو سزا ملے کسی بے گناہ پر تہمت لگا کر کیا گیا فعل بزات خود توہین دین بھی ہے اور توہین رسالت بھی
ماڈل ٹاون پارک میں چار طلبا نے سلامت منشا مسیح کیخلاف توہین مزہب کا الزام لگایا،سلامت منشا مسیح کیخلاف تھانہ ماڈل ٹاون لاہور میں مقدمہ درج ہے،ملزم سلامت منشا مسیح 4 جنوری 2021 سے جیل میں ہے۔
کیا سلامت اب آزاد ہے ؟ pic.twitter.com/b9EsBJJ90g
— Saleem Nawaz (@SaleemSahafi52) August 23, 2022
عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ گزشتہ سال سے قید ایک عیسائی سینیٹری ورکر کو دی گئی ضمانت کے معاملے میں آیا ہے۔ جسٹس عیسیٰ اور جسٹس سید منصور علی شاہ پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے ڈویژن بنچ نے سلامت منشا مسیح کی بعد از گرفتاری ضمانت کی درخواست پر سماعت کی جو لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی میں بطور سویپر ملازم ہے اور ان پر توہین مذہب کا الزام تھا۔
توہین مذہب کے ملزم سلامت منشا مسیح کی 50 ہزار کے عوض ضمانت منظور
https://t.co/ii9bmFzpBt #Pakistan pic.twitter.com/wJiVzlErWN— Daily Intekhab (@Intekhabhd) August 24, 2022
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نو صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا کہ ‘بدقسمتی سے ایسے کیسز کو وسیع پیمانے پر پبلسٹی ملتی ہے جس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ منصفانہ ٹرائل کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے’غیر ذمہ دارانہ اور سنسنی خیز میڈیا پر خبریں وہی با بار دہرائی جاتی ہیں جو مبینہ طور پر ملزم نے کہا یا کیا تھا۔ جج صاحب کا کہنا تھا کہ اس طرح کی بات منہ سے نکالنے والا خود بھی گنہ گار ہوتا ہے اور یہ بات سننے والے بھی جو لوگ اس کو دہراتے ہیں وہ خود بھی اسی جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں، فیصلے نے “مذہب سے متعلق جرائم” کی “سنگین” نوعیت پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
ایک دفعہ جج صاحبان کا کہنا تھا کہ کینکہ یہ بہت ہی حساس معاملہ ہے اور توہین کنے والے کے لیے بھی کیونکہ موت کی سزا ہے اس لیے صرف اس شخص پر مقدمہ ہونا چاہیے جس نے حقیقتاً یہ جرم کیا ہو تاکہ کوئی بے گناہ ناحق نہ مارا جائے لہذا، تمام متعلقہ افراد کو انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے کہ انصاف کی فراہمی میں کوئی ناانصافی نہ ہو ۔