توشہ خانہ اور سائفر کیس کے بعد پی ٹی آئی کا زیادہ ووٹر باہر نکلے گا : حامد میر

�عمران خان کو سائفر اور توشہ خانہ کیسز میں سزا ہوجانے پر تجزیہ کاروں اور صحافیوں کی رائے کا سلسلہ جاری ہے -زیادہ تر صحافیوں کا یہی کہنا ہے کہ یہ سزا زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہ پائے گی مگر عمران خان فروری 2024 کا الیکشن نہیں لڑسکیں گے -آج اس پر حامد میر نے بھیکالم کے ذریعے اپنا تجزیہ پیش کیا –
معروف صحافی اور تجزیہ کار حامد میرنے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹر اور سپورٹر کو پتہ تھا کہ جیل کے اندر ٹرائل ہورہا ہے آخر کار انہیں سزا تو دینی ہے،سب کو پتہ تھا کہ 8فروری سے پہلے پہلے سزا ہونی ہے،کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کا حوصلہ ٹوٹ جائے گا، ان کا جو موقف پہلے تھا ابھی بھی وہی ہے میرا خیال ہے کہ عمران خان کی سزا سے پی ٹی آئی ووٹرز اور سپورٹرز کے موقف میں پہلے سے زیادہ شدت آئے گی۔اور ان کا ووٹر زیادہ بڑی تعداد میں باہر نکل کر عمران خان کے ساتھ اظہار حمایت کرے گا –
حامد میر نے کہاکہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو سزا غیر متوقع نہیں ہے،اسلام آباد میں باخبر لوگوں کو پتہ تھاکہ 8فروری سے پہلے عمران خان کو دو تین مقدمات میں سزا سنائی جائے گی،اس کی وجہ یہ تھی جس جج صاحب کی عدالت میں کیس کی سماعت ہو رہی تھی،یہ جج صاحب بہت سے وزرا اعظم کے خلاف مقدمات کی سماعت کرتے رہے ہیں،ان کو 2012میں لایا گیا تھا اس وقت یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے،اس کے بعد انہوں نے راجہ پرویز اشرف کیخلاف مقدمے کی سماعت کی، پھرشاہد خاقان عباسی کیخلاف مقدمے کی سماعت کی،پھر 2018میں نوازشریف کو سزا دی اور 10سال قید کی سزا دی تھی،پھر انہی جج صاحب نے عمران خان کو 14 سال قید کی سزا سنائی اورایک ارب 57کروڑ بھی جرمانہ بھی کر دیا۔
نے کہاکہ جولائی 2018میں سب کو پتہ تھا کہ الیکشن سے پہلے پہلے نوازشریف کو سزا ہو جائے گی بالکل اسی طرح ہوا ، ہمیں بھی 100فیصد نہیں 200فیصد یقین تھا کہ 8فروری سے پہلے پہلے عمران خان کو سزا ہونی ہی ہے،تحریک انصاف کو سیاسی طور پر فائدہ ہورہا ہےکیونکہ 2018میں نوازشریف کو سزا سنائی گئی تھی ان کو فائدہ ہوا تھا ان کی مقبولیت بڑھی تھی۔

حامد میر نے کہاکہ الیکشن کا رزلٹ عوامی رائے کی عکاسی نہیں کرتا ،2018کے الیکشن میں عوامی رائے کی عکاسی نہیں ہوئی تھی اسی طرح 2024میں جو فیصلہ ہوا ہے اس کا عمران خان کو سیاسی فائدہ ہےان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا،لیکن 8فروری کے الیکشن میں وہ مقبولیت ظاہر نہیں ہو گی،قانونی اعتبار پر دیکھا جائے تو 2018میں نوازشریف کو نقصان ہوا تھا 2024میں عمران خان کو نقصان ہوگا۔تاہم یہ فیصلہ تو 8 فروری کی شام کو ہی ہوگا کہ ان عدالتی فیصلون کا عمران خان کو فائدہ ہوگا یا نقصان کیونکہ 18 ماہ کے بعدپہلی مرتبہ پی ٹی آئی کا ووٹر باہر آنے کے لیے آزاد ہوگا اور اس کو پکڑ دھکڑ کا خوف بھی نہیں ہوگا اور عمران خان سے کیے گئے وعدے نبھانے کا پوراموقع بھی اسے اسی روز ہی ملے گا –

Related posts

ضد اور نفرت چھوڑیں : عوام اور ملکی مفاد کے فیصلے کریں ؛عارف عباسی

نواز شریف کا پاک فوج کے آپریشن عزم پاکستان کی حمایت کا اعلان

شاہد خاقان عباسی نے ’ عوام پاکستان پارٹی ‘ کی بنیاد رکھ دی