سپریم کورٹ نے وزارت دفاع کی ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کردی،عدالت نے کل تمام سیاسی جماعتوں کو طلب کرلیا،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے نمائندوں کے ذریعے موقف دیں, سیاسی جماعتیں اگر ایک موقف پر آجائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے،اگر سیاسی جماعتیں انتخابات کی تاریخ بدلنا چاہتی ہیں تو عدالت ان کے ساتھ ہے ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مذاکرات کی بات ہے تو 8 اکتوبر پر ضد نہیں کی جاسکتی،یکطرفہ کچھ نہیں ہوسکتا، سیاسی جماعتوں کو دل بڑا کرنا ہوگا۔
دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے کہاکہ آئین میں اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کا وقت مقررہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ برطانیہ میں جنگ کے دوران بروقت انتخابات ہوئے تھے، بم دھماکوں کے دوران بھی برطانیہ میں انتخابات ہوتے تھے ، اٹارنی جنرل نے کہاکہ سکیورٹی فورسز کا کام بیرونی خطرات سے نمٹنا ہے،2001 سے سکیورٹی ادارے سرحدوں پر مصروف ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے فنڈزاور سکیورٹی ملنے پر انتخابات کرانے کا کہاتھا،عدالتی حکم ایک سے دوسرے ادارے کو بھیجا جارہا ہے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ جو پیغام آپ دینا چاہتے ہیں وہ سمجھ گیا ہوں،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ کیا گارنٹی ہے 8اکتوبر کو الیکشن ہو جائیں گے؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ فوج نے انتخابات کے مقررہ وقت کے مطابق آپریشنز شروع کئے تھے،جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کیا آرٹیکل 245 کے تحت فوج سول حکومت کی مدد کیلئے آتی ہے؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 245 کے تحت بنیادی حقوق معطل ہوتے ہیں،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ کیا 2018کے انتخابات میں بنیادی حقوق معطل تھے؟وفاقی حکومت آرٹیکل 245 کا اختیار کیوں استعمال نہیں کر رہی؟کیا آئین بالادست نہیں ہے؟افواج نے ملک کیلئے جانوں کی قربانیاں دی ہیں، افواج پاکستان کا تو سب کو شکرگزار ہونا چاہئے۔عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ جب آپ کو پہلے دلائل کے لیے بلایا گیا تھا تو آپ نے یہ نکات نہیں اٹھائے جو آج اٹھا رہے ہیں -اب ہم 4 اپریل کو فیصلہ دے چکے ہیں کل فوجی افسران کو ساری تفصیل بتادی کہ عدالت اپنا فیصلہ واپس نہیں لے گی کیونکہ آئین میں اس کی گنجائش ہی نہیں اب صرف ایک ہی حل ہے کہ تمام جماعتیں مل کر فیصلہ کرلیں پھر تاریخ تبدیل ہوسکتی ہے –