بہلول کا نام تو آپ نے ضرور سنا ہو گا جنہیں بہلول دانا بھی کہا جاتا ہے۔ آپ خلیفہ ہارون الرشید کے دور (مارچ 766 ء سے مارچ 809ء) میں ایک تارک الدنیا درویش کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ ان کا کوئی گھر یا ٹھکانہ نہیں تھا، شہر میں ننگے پاؤں پھرتے اور جس جگہ تھک جاتے، وہیں ڈیرہ ڈال لیتے۔ بعض لوگوں نے انہیں مجذوب بھی لکھا ہے کیونکہ وہ عشق الٰہی میں گم اور اردگرد کے ماحول سے بے خبر ہوتے تھے۔ بہت کم لوگوں سے ملتے جلتے اور بات کرتے لیکن جب کبھی عوام الناس میں آکر بیٹھ جاتے توحکمت و دانائی کی ایسی باتیں کرتے کہ سب حیران ہوجاتے ۔عراق کے شہر کوفہ میں پیدا ہونے والے بہلول کا اصل نام وہب بن عمرو اور تعلق عرب قبیلے بنو امان سے تھا۔ ان کے والد چھٹے امام جعفر الصادق کے شاگرد تھے، بہلول کا شمار بھی امام موسیٰ کاظم کے پیرو کاروں میں ہوتا تھا۔خلیفہ ہارون الرشید سے ان کی ملاقات 188 ہجری میں خلیفہ کے سفر حج کے دوران کوفہ میں ہوئی، بہلول نے ہارون کو جو نصیحتیں کیں ان سے متاثر ہو کر وہ انہیں اپنے ساتھ بغداد لے آیا اور پھر بہلول کا ٹھکانہ بغداد کی گلیاں ہی رہیں۔ بہلول کا مزار بھی بغداد میں ہی ہے
کہتے ہیں کہ ایک دن بہلول دریائے دجلہ کے کنارے بیٹھے گیلی ریت کی ڈھیریاں بنا رہے تھے اور ہارون الرشید کی چہیتی ملکہ زبیدہ اپنے محل کے جھروکے سے بڑے انہماک کے ساتھ انہیں دیکھ رہی تھی۔ وہ مٹّی کی ڈھیری بناتے اور پھر خود ہی اسے مسمار کر دیتے۔ ملکہ جھروکے سے اتر کر اپنی سہیلیوں کے ہمراہ دریا کنارے آگئی اور پوچھا ’کیا کر رہے ہو بہلول؟‘۔بہلول نے ادائے بے نیازی سے کہا ’جنت کے محل بنا رہا ہوں‘۔ملکہ نے سوال کیا ’اگر کوئی تم سے یہ محل خریدنا چاہے تو فروخت کرو گے؟‘۔ بہلول نے کہا ’ہاں ہاں، کیوں نہیں، میں بناتا بھی ہوں اور فروخت بھی کرتا ہوں‘۔ ملکہ نے پوچھا، ’بتاؤ ایک محل کی قیمت کیا ہے‘۔ بہلول نے بے ساختہ کہا ’ 100 درہم‘ ملکہ کے حکم پر بہلول کو 100 درہم اسی وقت ادا کر دیے گئے۔
یہ واقعہ ملکہ نے اپنے شوہر خلیفہ ہارون الرشید کو بتایا جسے خلیفہ نے مذاق میں ٹال دیا اور بولا کہ اس نے تمہیں بے وقوف بنا کر 100 درہم بٹور لیے ہیں مگر ملکہ جانتی تھی کہ بہلول کو مال و دولت کا کوئی لالچ نہیں اسی لیے اس نے بہلول سے جنت کا سودا کرلیا -، لیکن رات کو ہارون نے خواب میں جنت کے مناظر دیکھے جن میں آبشاروں اور مرغزاروں کے علاوہ خوبصورت محلات بھی شامل تھے۔ سرخ یاقوت کے ایک محل پر اس نے زبیدہ کا نام بھی لکھا دیکھا۔ ہارون نے سوچا کہ دیکھوں تو سہی کیوں کہ یہ میری بیوی کا گھر ہے۔ وہ محل میں داخل ہونے کے لیے جیسے ہی دروازے پر پہنچا، دربان نے اسے روک لیا۔ ہارون الرشید کہنے لگا، اس پر تو میری بیوی کا نام لکھا ہے، اس لیے مجھے اندر جانا ہے، دربان نے کہا ’نہیں، یہاں کا دستور الگ ہے، جس کا نام ہوتا ہے صرف اسی کو اندر جانے کی اجازت ہے، لہٰذا آپ کو داخل ہونے کی اجازت نہیں‘۔ جب دربان نے ہارون کو پیچھے ہٹایا تو اس کی آنکھ کھل گئی لیکن بیدار ہونے پر خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے زبیدہ کے حق میں بہلول کی دعا قبول کر لی ہے، چنانچہ وہ ساری رات اسی افسوس میں کروٹیں بدلتا رہا۔
اگلی شام وہ بہلول کو تلاش کرتا دریا کنارے پہنچ گیا۔ بہلول ایک جگہ بیٹھے اسی طرح مکان بنا رہے تھے۔ ہارون نے پوچھا، کیا کر رہے ہیں، بہلول نے کہا، جنت کے محل بنا رہا ہوں۔ ہارون نے پوچھا، بیچو گے تو بہلول نے کہا، ہاں ہاں، کیوں نہیں، میں بناتا بھی ہوں اور فروخت بھی کرتا ہوں۔ ہارون نے سوال کیا کہ بتاؤ ایک محل کی قیمت کیا ہے، تو بہلول نے جواب دیا، تیری آدھی سلطنت۔
ہارون الرشید نے کہا، اتنی قیمت تو میں نہیں دے سکتا، کل تو آپ 100 درہم کے بدلے دے رہے تھے اور آج پوری سلطنت مانگ رہے ہیں۔ بہلول دانا نے کہا، خلیفہ، کل بن دیکھے معاملہ تھا اور آج تم محل دیکھ کر آئے ہو۔ خلیفہ یہ سن کر مایوسی سے گھٹنوں کے بل بہلول دانا کے سامنے بیٹھ گیا اور کہنے لگا حضرت آپ مجھ سے میری ساری سلطنت لے لیں، لیکن مجھے ایک محل دے دیں۔ جب بہلول دانا نے خلیفہ کی عاجزی دیکھی تو کہا کہ میں تمہاری اس سلطنت کا کیا کروں گا۔ اس دنیا کی محبت تو بہت سے گناہوں کی جڑ ہے، جاؤ اپنی سلطنت اپنے پاس رکھو ۔