افغان شہری شربت گلا روم پہنچ گئی ہے، اس نے ایک بیان میں کہا، کہ اس کی زندگی کو افغانستان میں خطرہ ہے شربت گلہ کی تصویر 80 کی دہائی میں دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی تصاویر میں سے ایک تھی اور پاکستان کی دکانوں اور گھروں میں اس بچی کے پوسٹرز دکھائی دیتے تھے ایسے افراد جن کی جان کو افغانستان میں خطرات لاحق تھے ان کو روم نے سیاسی پناہ دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے

روم نے کہا کہ اس نے افغانستان میں کام کرنے والیایسی غیر منافع بخش تنظیموں کی درخواستوں کا جواب دیا ہے کہ وہ طالبان کے زیر کنٹرول ملک چھوڑنےپر مجبور ہوگئی ہیں ایسی ہی ایک درخواست شربت گلہ کی جانب سے بھی آئی جو اپنی تصاویر کی وجہ سے خود کو افغانستان میں غیر ؐحفوظ سمجھ رہی تھی – افغان شہریوں کے انخلاء کے وسیع پروگرام کے ایک حصے کے طور پر اس کے لیے اٹلی کا سفر کرنے کا انتظام کیا گیا ہے اور حکومت اس منصوبے کے لیے ان کا استقبال اور انضمام”کرے گی۔

امریکی فوٹوگرافر اسٹیو میک کیری نے 1980 کی دہائی میں پاکستان کے ایک کیمپ میں اس کی تصویر کھینچی اور اسے نیشنل جیوگرافک میگزین کے فرنٹ کور پر شائع کرنے کے بعد شربت گلا افغانستان کی سب سے مشہور پناہ گزین بن گئیاس کے کئی سال بعد اس نے اسی بچی کو افغانستان میں تلاش کی تو سخت کاوش کے بعد اسے وہ بچی تو مل گئی مگر اب وہ ایک شادی شدہ خاتون بن گئی تھی اور حجاب کرتی تھی تاہم اس نے پھر بھی اپنی تصویر کھچوانے پر رضامندی ظاہر کردی مگر یہی فیصلہ اس کی زندگی کے لیے خطرہ بن گیا ۔
شربت گلہ نے کہا کہ وہ پہلی بار یتیم کے طور پر پاکستان پہنچی، 1979 کے سوویت حملے کے تقریباً چار یا پانچ سال بعد، جو ان لاکھوں افغانوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے سرحد پر پناہ حاصل کی ہے۔
اسے 2016 میں افغانستان واپس بھیج دیا گیا تھا جب اسے جعلی شناختی کاغذات پر پاکستان میں رہنے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔
ستمبر کے اوائل میں، روم نے کہا کہ اگست میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد اس نے تقریباً 5000 افغانوں کو افغانستان سے نکال لیا ہے۔
اٹلی کے علاوہ انگلینڈ ،ترکی اور جرمنی نے بھی کئی افغانیوں کو اپنے ملک میں پناہ لینے کی اجازت دے رکھی ہے