نون لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب سمجھے جانے والے صحافی ابصار عالم نے بھی اداروں کو ساتھ مل کر چلنے اور اپنی حدود میں رہنے کا مشورہ دے دیا جو بہت حیران کن بات ہے -ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند ہفتوں سے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ آمنے سامنے کھڑی نظر آ رہی ہے جس سے یہ لگ رہا ہے کہ اگر یہ سلسلہ نہ رکا اور ایسے ہی چلتا رہا تو دونوں اہم ترین اداروں کی یہ لڑائی کسی بڑے بحران کا سبب بن سکتی ہے۔ پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال ملک میں کسی نئے اور بڑے بحران کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کو معاشی چیلنجز سے نبٹنے کیلئے اہم اصلاحات کرنے کیلئے سسٹم کو ایک استحکام کی ضرورت ہے، سیکیورٹی و فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے درمیان موجود تناؤکا بڑھنا کسی کی جیت نہیں ہو سکتا بلکہ اس میں سب کی ہار ہو گی۔ اس صورتحال کا سب کو ادراک ہونا چاہیے تناؤ اور لڑائی کو روکا جائے۔ اگر ایک طرف عدلیہ کے معاملات میں ایجنسیوں کی مداخلت کا روکا جانا ضروری ہے تو دوسری طرف ججوں کو بھی دفاع اور سیکیورٹی سے جڑے معاملات پر فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں کے تحفظات کو سمجھنا چاہیے۔ ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے کہ ملک کے دفاع، سیکیورٹی اور دہشتگردی جیسے معاملات میں فون ٹیپنگ جیسی سہولتوں سے مدد لی جائے لیکن یہ غلط ہو گا کہ کسی سیاستدان ، جج یا صحافی کے فون ٹیپ کر کے اُن کو سیاسی مقاصد کے حصول یا بلیک میلنگ کیلئے لیک کیا جائے۔ جہاں غلط ہو رہا ہے اُسے عدلیہ کو ضرور روکنا چاہیے لیکن اگر ایجنسیاں یہ کہیں کہ فون ٹیپنگ سے متعلق کچھ حساس معاملات پر ججز سے یہ کہیں کہ جج کے چیمبر میں بات کی جانی چاہیے توایسی درخواست پر عدلیہ کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
اسٹیبشمنٹ اور عدلیہ کی محاذ آرائی ملک کیلئے ٹھیک نہیں ؛انصار عباسی
27
previous post