اسلام آباد ہائی کورٹ کا تحریک انصاف کو استعفوں کے معاملے پر نظر ثانی کا مشورہ

پاکستان تحریک انصاف نے استعفوں کے معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا -جب عمران خان نے اسمبلی توڑنے کا اعلان کیا تھا تو قاسم سوری نے ان تمام ارکان پارلیمنٹ جن کا تعلق تحریک انصاف سے تھا ،کے استعفے منظور کرلیے تھے مگر جب ان کی حکومت ختم ہوئی اور ان کی جگہ راجہ پرویز اشرف سپیکر بنے تو انھوں نے 11 ارکان پالیمنٹ کے استعفے منظور کیے باقیوں کے منظور کرنے سے انکار کردیا تھا جس کی وجہ سے پی ٹی آئی نے عدالت سے رجوع کیا تھا

اسلام آباد ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی کے 11ارکان قومی اسمبلی کے استعفے منظور ہونے کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی ۔بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ سپیکر نے اپنا آئینی فریضہ نہیں نبھایا، کُل 123 ارکان نے استعفے دیے تھے سب کو منظور ہونا چاہیے تھا، آڈیو لیک میں سامنے آچکا کہ کیسے صرف 11 ارکان کے استعفے منظور کیے گئے، ہم نے مشروط استعفے دیے تھے، ہمارا سیاسی مقصد تمام 123 نشستیں خالی کرنا تھا جس کے بعد نئے انتخابت کی راہ ہموار کرنا تھا مگر حکومت نے ہماری بات نہین مانی اب کیونکہ ہمارا وہ مقصد پورا نہیں ہوا تو ہم سمجھتے ہیں ابھی سب ایم این اے ہیں۔

 

دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ہمیں تاریخ سے سیکھنا چاہیے دہرانا نہیں چاہیے، منتخب نمائندے پارلیمنٹ کا احترام نہیں کر رہے جو انکو کرنا چاہیے،ملکی معیشت سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے خراب ہوئی ہے، ہمارا ماضی بھی کوئی اتنا اچھا نہیں ہے، اگر پارلیمنٹ میں نہیں جانا تو یہ ارکان بحالی کیوں چاہ رہے ہیں؟
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ پارلیمنٹ جانا نہ جانا پارٹی کا کام ہے، عدالت اس سے دور رہے۔ جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت آپ کو پارلیمنٹ جانے کا تو نہیں کہہ رہی لیکن آپ کی جماعت کے اپنے مؤقف میں تضاد ہے – یہ عدالت درخواست گزاروں اور انکی پارٹی کےرویوں کو دیکھ رہی ہے، کوئی پارلیمنٹ کو تسلیم نہیں کرتا تو کیا عدالت سیاسی عدم استحکام کا حصہ بن جائے؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ایک دفعہ پارلیمنٹ جائیں پھر یہ پٹیشن یہاں لے کر آئیں، ہم سنیں گے۔

وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں انہوں نے نکال دیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان گیارہ ممبران پارلیمنٹ کی نہیں، میں باقی ارکان اسمبلی کی بات کر رہا ہوں جن کے استعفے قبول نہیں کیے گئے ، پارٹی نیک نیتی تو ثابت کرے، اگر یہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے کر رہے ہیں تو عدالت اس کا حصہ نہیں بنے گی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا قاسم سوری کا استعفےمنظور کرنے کا فیصلہ انکا اپنا تھا؟ ، پارلیمنٹ تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا قاسم سوری نے خود کیا تھا ؟ ، ارکان نے اپنی مرضی سے استعفے دیئے تھے یا اپنے لیڈر کی خوشنودی کیلئے؟ وکیل علی ظفر نے کہاکہ استعفے درست طور پر منظور نہیں ہوئے اس لیے پارٹی اب استعفے نہیں دینا چاہتی، پارٹی کی پالیسی ہے کہ ہم اب ایم این ایز برقرار ہیں-

پی ٹی آئی نے استعفے دیئے کہ تمام 124 منظور کیے جائیں مگر اب 11 کو منتخب کر کے استعفے منظور کیے گئے، عدالت نے استعفے کی منظوری کا طریقہ کار طے کر دیا تھا، اگر 5دن بعد پارٹی پارلیمنٹ جانے کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ ارکان موجود نہیں ہونگے۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ عدالت آپکو 5دن کا وقت دے دیتی ہے، 5دن میں ثابت کریں کہ آپ کلین ہینڈز کے ساتھ آئے ہیں۔
اب عدالت نے بال پی ٹی آئی کے کورٹ میں ڈال دی ہے اب پی ٹی آئی کو فیصلہ کرنا ہے کہ انھوں نے لانگ مارچ کی جانب بڑھنا ہے یا واپس اسمبلی جانا ہے اس کے لیے انکے پاس اب 5 دن کا وقت بچا ہے-

Related posts

عمران خان کی دونوں بہنوں کے خلاف عدالتی فیصلہ محفوظ

جو ججز کے خلاف مہم چلائے گا اڈیالہ جیل جائے گا؛ فل کورٹ کا فیصلہ

میں عمران خان کو ویڈیو لنک پر دیکھنا چاہتا ہوں ؛ اے ٹی سی جج کا حکم