اسلام آباد کی مساجد و امام بارگاہوں میں متنازع تقاریر پر پابندی

پاکستان میں 1990 سے جو فرقہ واریت کا سلسلہ شروع ہوا تھا وہ آج تک جاری ہے اس کی وجہ سے ہزاروں افراد موت کی وادی میں اتر چکے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مساجد سنبھالنےوالے اپنا کردار پوری طرح نہیں بنھا رہے ہیں بلکہ وہ خود اس فرقہ واریت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں مساجد کےا ماموں نے جس دن اسلام کی روح لوگوں کو سمجھا دی ملک میں امن آجائے گا تاہم اب حکومت اور فوج نے فیصلہ کرلیا ہے کہ مساجد اور امام بارگاہوں سے ایسے بیانات کو روکا جائے جن سے نفرت پھیلتی ہو -اسی حوالے سے ایک منظم پروگرام لاہا جارہا ہے -مسجد و امام بارگاہوں پر 1986ء کے رولز کی جگہ 2023ء کے رولز نافذ کر دیے گئے جس کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اب مساجد و امام بارگاہوں سے کوئی متنازع تقریر نہیں ہوسکے گی۔

نئے رولز کے تحت مساجد کمیٹیاں مستند عالم دین یا پہلے سے موجود بانی ٹرسٹی کی زیر نگرانی قائم ہوگی۔ تمام مساجد و امام بارگاہوں پر یہ قواعد لاگو ہوں گے۔ دارالحکومت کی انتظامیہ کی رجسٹریشن کے سوا تمام غیر رجسٹرڈ کمیٹیاں ختم تصور ہوں گی وقف منیجر کا مستند عالم دین ہونا یا مسجد و امام بارگاہ کا بانی ٹرسٹی ہونا لازم ہوگا اور وقف منیجر اس کو متعین کیا جائے گا جو تمام قوانین کا پابند ہو، کسی ایسے شخص جو شیڈول فور میں شامل ہو وہ وقف منیجر نہیں رہے گا۔

رولز کے مطابق کسی بھی قسم کی مقدمہ بازی میں ملوث شخص بھی کسی مسجد و امام بارگاہ کمیٹی کی سربراہی نہیں کرسکے گا،مسجد منیجر کے لیے اسلام آباد انتظامیہ کو ایک اچھے کردار کے حامل عالم دین یا مہتمم کے نام کی سفارش کی جائے گی، یقینی بنایا جائے گا کہ جس شخص کو بطور مسجد منیجر نامزد کیا گیا ہے وہ کسی قسم کی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں۔

اسلام آباد میں بنا اجازت کوئی مسجد یا امام باگاہ تعمیر نہیں ہوگی کسی نئی مسجد کے قیام کی غرض سے درخواست چیف ایڈمنسٹریٹر کو دی جا سکے گی۔ محکمہ اوقاف کی تمام ضروریات اور تمام دستاویزات مکمل کرکے اسلام آباد انتظامیہ کو نئی مسجد کے قیام کے لیے درخواست دی جا سکے گی ایک ہی جگہ پر مسجد کے قیام کے لیے ایک سے زائد درخواستوں پر خصوصی کمیٹی قائم کی جائے گی اور کمیٹی تمام امور کا جائزہ لینے کے بعد مسجد کے لیے پلاٹ الاٹ کرنے کی سفارش کرے گی۔ کمیٹی کے فیصلے کے 15 دن کی مدت کے اندر اعتراضات چیف کمشنر اسلام آباد کو دیے جا سکیں گے۔

نئے رولز کے تحت بین المذاہب ہم آہنگی کو ٹھیس پہنچانے والے ، ملکی سلامتی سے متصادم یا مسجد فنڈز کے خرد برد کرنے والے وقف منیجر کو عہدے سے ہٹایا جا سکے گا اور اس کے خلاف چیف کمشنر اسلام آباد کو درخواست دائر کی جا سکے گی -درخواست کے 3 ماہ کے اندر اندر کارروائی عمل میں لائی جائے گی اور نیا منیجر متعین کیا جائے گا۔مسجد منیجر کا نمازیوں میں بھائی چارے، باہمی احترام، تمام مذاہب کا احترام اور فنڈز کی شفافیت یقینی بنانے سمیت 7 اہم نکات پر عمل پیرا ہونا لازم ہوگا۔ مسجد منیجر کی اجازت کے بغیر کوئی عالم یا واعظ خطبہ جمعہ یا کوئی تقریر نہیں کرسکے گا، ہر مسجد یا امام بارگاہ میں تمام امور کا ذمہ دار بھی وقف منیجر ہوگا۔ہماری دعا ہے کہ سب پاکستانی محبت اور بھائی چارے کو فروغ دین اور اپنے طرز عمل سے چابت کریں کہ رب کا وعدہ سچا ہے کہ دنیا میں سب سے بہتر دین اسلام ہے اور اللہ کو بھی سب سے زیادہ دین اسلام ہی پسند ہے –

Related posts

حسینی فوج کے سالار حضرت عباسّ کو علمدار کیوں کہا جاتا ہے ؟

حضرت خالد بن ولید نے بسم اللہ پڑھ کر زہر کیوں کھالیا تھا؟ایمان افروز واقعہ

حج پر جانے والی 10 بزرگ خواتین کی مریم نواز اور نواز شریف سے ملاقات