پاکستان کی اس سے بڑی بدنصیبی کیا ہوگی کہ یہاں ایک آدمی جسے ملک سے باہر بےدردی کے ساتھ کئی گھنٹے کے تشدد کے بعد جان سے مار دیا جائے اس کے قتل کا مقدمہ 43 دن بعد سپریم کورٹ کے بنچ کے فیصلے کے بعد درج ہو – وہ صحافی جس کا شمار پاکستان کے صف اول کے صحافیوں میں ہوتا ہو اور اس کی شہادت کے بعد اس کی مان بیوی اور بچے انصاف کے لیے پہلے سربراہان مملکت ہھر صحافیوں پھر سیاستدانوں اور پھر اپنے جیسے مظلوم عوام کے آگے گڑگڑائیں کہ اس خون ناحو جو بہادیا گیا اس کو انصافگ دلوانے کے لیے ان کا ساتھ دیں اور پھر الحمدللہ یہ باضمیر قوم ارشد شہید کے اہل کانہ کے ساتھ کھڑی ہوئی اور آج سپریم کورٹ نے یہ کہ کر کہ وہ عام کے جزبات کی قدر کرتے ہیں اس
ادارے نے ارشد شریف کی شہادت پر مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا جو عوام کی بہت بڑی فتح ہے
چیف جسٹس پاکستان نے کہ عدالت نے رپورٹ دیکھنی ہے،تحقیقات کرنا حکومت کا کام ہے، عدالت کا نہیں،کینیا میں حکومت پاکستان کو رسائی حاصل ہے،تحقیقاتی رپورٹ تک رسائی سب کا حق ہے ۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ارشد شریف کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہاکہ صحافی شہید ہو گیا سامنے آنا چاہئے کس نے اس بے گناہ کی جان لی ا،صحافی سچائی کی آواز ہیں،انسانی زندگی کامعاملہ ہے، ارشد شریف نامور صحافی تھے،صحافی ہی معلومات کا ذریعہ ہیں ،کینیا میں پاکستانی حکومت کیساتھ تعاون کرنے پر تیار ہیں۔