مریم نواز کو پارٹی کا نائب صدر بنانے کا فیصلہ پارٹی میں موجود سینئر رہنماؤں کو سخت ناگوار گزرا اور انھوں نے میڈیا پر آکر اس پر بات بھی شروع کی تو مریم نواز نے اس معاملے کو ہینڈل کرنے کے لیے شاہد خاقان سے رابطے کا فیصلہ کیا مگر لگتا یہی ہے کہ اب یس معاملے میں بہت دیر ہوگئی ہے -مگر اس معاملے کو سمیٹانہ گیا تو مسلم لیگ نون میں فارورڈ بلاک بن سکتا ہے -تمام سینئر رہنما مریم نواز کی جارحانہ پالیسی سے پریشان ہیں -سینیٹر مشاہد حسین نے بھی جو آج اپنی حکومت پر تنقید کی وہ بھی پارٹی کے لیے بڑے مسائلل کھڑے کرسکتی ہے کیونکہ ان کے بیانت سے ایم پی ایز اور ایم این ایز یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیںگے کہ اس حکومت کے دن گنے جاچکے ہین اور اب مزید مشکل فیصلے ان کے الیکشن لڑنے میں دشواریاں پیدا کریں گے –
اس سے قبل آج صبح، میڈیا رپورٹس منظر عام پر آئی تھیں کہ پارٹی کے سینئر رہنما نے حال ہی میں تعینات ہونے والی پارٹی کی چیف آرگنائزر مریم نواز کی وطن واپسی کے بعد خود کو شاہد خاقان عباسی سے دور کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اور وہ خود بھی مریم نواز کو لینے کے لیے ایر پورٹ نہیں آئے تھے –
شاہد خاقان کے استعفے کی تائید کرتے ہوئے محمد زبیر نے صحافیوں کو بتایا کہ “شاہد خاقان عباسی مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور کارکن ہیں، مجھے یقین ہے کہ سینئر نائب صدر کے عہدے سے سبکدوش ہونے سے ان کے قد پر کوئی فرق نہیں پڑے گا”۔وہ بہت بڑے لیڈر ہیں، وہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور پارٹی کو ان کی بہت ضرورت ہے۔”
“انٹرا پارٹی سیاست کو عوام میں لانے” سے گریز کرتے ہوئے، زبیر نے کہا کہ مفتاح اسماعیل پارٹی کے رکن تھے اور ان کی جگہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی “بڑی حیثیت” ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کو 14 مارچ تک انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے، مقامی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ پارٹی کے اندر تناؤ بڑھ رہا ہے۔اختلاف خاص طور پر مریم کی پروموشن، وزیر خزانہ کی سیٹ اور اقتصادی پالیسیوں کے ارد گرد نظر آتا ہے۔
۔