اس انسانیت سوز واقعے پہ آدم کے بیٹوں کو شرم نہیں آئی۔
اپنے گھر کا دفاع کرنا ہر آدمی کا حق ہے۔ حکومت نے تاحال اس حوالے سے کوئی مدلل جواب نہیں دیا۔
آسام کے ضلع درانگ کے علاقے سیپا جھار میں جمعرات کو سینکڑوں مسلح پولیس اہلکار ایک بستی خالی کرانے کے لیے مامور کیے گئے تھے۔
جھونپڑیوں پر مشتمل اس بستی کے ہزاروں لوگوں نے زمین خالی کرانے کی اس مہم کے خلاف مزاحمت کی تھی اور اس موقع پر پولیس کی فائرنگ سے دو افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے تھے۔

ہلاک ہونے والوں کے نام صدام حسین اور شیخ فرید بتائے گئے ہیں۔
اس تصادم سے متعلق ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہاتھ میں کیمرا لیے ایک شخص ہلاک ہونے والے شخص کی لاش پر کود رہا ہے۔
بعد میں سامنے آنے والی اطلاعات کے بعد معلوم ہوا کہ کودنے والا شخص ایک مقامی فوٹوگرافر ہے جو انتظامیہ کی جانب سے ساری صورتِ حال کو ریکارڈ کرنے کے لیے بلوایا گیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق اس شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور حکومت کی جانب سے تحقیقات جاری ہیں۔
تاہم وزیر اعلیٰ ہمنت بسوا سرما نے گوہاٹی میں کہا ہے کہ تجاوزات ہٹانے کی مہم کو نہیں روکا جائے گا۔

کارروائی کے بارے میں تفصیلات دیتے ہوئے ضلع درنگ کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سوشانت بسوا شرما نے میڈیا کو بتایا کہ پولیس نے ضلعی انتظامیہ کے افسران کے ساتھ جمعرات کو اس سرکاری اراضی سے تجاوزات ختم کرنے کے لیے ایک مہم شروع کی تھی۔
ان کے مطابق اس مہم کے دوران تجاوزات بنانے والوں نے احتجاج کرتے ہوئے پتھراؤ شروع کر دیا جس سے نو پولیس اہلکار اور دو عام شہری زخمی ہوئے۔ سوشانت شرما کا کہنا ہے کہ ان میں سے ایک پولیس اہلکار اسسٹنٹ سب انسپکٹر منیر الدین کو گوہاٹی میڈیکل کالج ہسپتال میں داخل کیا گیا ہے اور ان کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
پانط ہزار سے زائد لوگ اس مہم کی مزاحمت کے لیے جمع کیے گئے تھے۔
’ضلعی انتظامیہ کے اہلکار لوگوں کے گھروں کو مسمار کر رہے تھے۔ اس دوران دونوں فریقوں کے درمیان جھڑپ شروع ہو گئی اور پولیس نے فائرنگ کر دی۔
دو افراد ہلاک اور 20 سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد انڈین سوشل میڈیا پر شدید نوعیت کا رد عمل سامنے آیا ہے جس میں اکثریت لوگوں نے فوٹوگرافر کے عمل کی مذمت کی ہے۔
’تجزیہ کار انکر بھردواج تبصرہ کرتے ہیں کہ ’ایک فوٹو جرنلسٹ کا ایک مردہ شخص پر کودنا جسے ابھی سکیورٹی فورسز والوں نے قتل کیا ہو، یہ بالکل اسی بات کے برابر ہے جیسا ہم نیوز اینکرز کو گذشتہ کئی سالوں سے سٹوڈیو میں کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ ایک موت کا رقص۔‘
حکومت پچھلے کافی عرصے سے ایسی مہمات جاری رکھے ہوئے ہے اور کئی بستیوں کو اسی طرح خالی کروا چکی ہے۔

گزشتہ جون میں بارپیٹا کے رکن پارلیمان عبد الخالق نے گوہاٹی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو لکھے گئے ایک خط میں ہوجئی اور سونت پور اضلاع میں زمینیں خالی کرانے کی اسی طرح مہم کا ذکر کرتے ہوئے گھر کے بنیادی حقوق کا حوالہ دیا تھا اور درخواست کی تھی کہ وہ اقوام متحدہ کے انسانی پناہ کے حقوق اور انڈیا کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت کرے کہ وہ اپنے گھروں سے بے دخل کیے گئے انسانوں کو متبادل پناہ گاہ فراہم کرے ۔
آسام میں دریائے برہم پترا ملک کے بڑے دریاؤں میں شمار ہوتا ہے۔
وہ ریاست سے گزر کر بنگلہ دیش میں داخل ہو تا ہے۔

جون جولائی ، اگست اور ستمبر میں مون سون کی بارشوں کے موسم میں تقریبآ ہر برس دریا کا پانی سیلابی شکل اختیار کر لیتا ہے اور بالائی اور نشیبی آسام سے گزرتے ہوئے برہم پترا سیکڑوں دریائی جزیرے بنا دیتا ہے۔
دو ہزار تین کے ایک سروے کے مطابق ریاست میں اس وقت 2251 دریائی جزیرے تھے جن میں بیس لاکھ سے زیادہ لوگ آباد تھے ۔
یہ جزیرے موسمِ سرما کے دنوں میں پانی سے ابھر کر اوپر آ چاتے ہیں اور انتہائی زرخيز ہوتے ہیں جبکہ بارش کے دنوں میں ان میں سے بہت سے جزیرے ڈوب جاتے ہیں۔ریاست کے ایک رکن اسمبلی عبدالباطن کا کہنا ہے کہ انسانی آبادی کے دباؤ اور ماحولیاتی تبدیلی سے آسام کی دس قیصد زمین دریائی کٹاؤ کے سبب کم ہو گئی ہے اور اس وجہ سے ریاست کی تقریباََ 35 لاکھ آبادی اپنی زمین سے بےدخل ہو گئی ہے جن میں سے بیشتر دریائی جزیروں کے باشندے ہیں۔
یہ باشندے کٹاؤ کے بعد نزدیک کی خالی پڑی ہوئی سرکاری ملکیت کی زمینوں پر اپنا ٹھکانہ بنا لیتے ہیں۔

عبدالباطن کا دعویٰ ہے کہ ’ان میں سے 90 فیصد سے زیادہ آبادی بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی ہے جن کی غالب اکثریت ناخواندہ ہے۔
کانگریس کے زمانے میں انھیں سرکاری زمینوں سے بے دخل نہیں کیا جاتا تھا لیکن زمین ان کے نام الاٹ بھی نہیں کی جاتی تھی۔
اب حکومت انھیں ان زمینوں سے بے دخل کر رہی ہے جبکہ یہ ریاست کے جائز باشندے ہیں اور سبھی کے پاس شہریت کے مطلوبہ دستاویزات موجود ہیں۔
تاہم آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بشو شرما دریائی کٹاؤ کے ان لاکھوں متاثرین کو ‘درانداز’ کہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ زمینیں خالی کرانے کے بعد وہ ان زمینوں کو ریاست کے ‘اصل باشندوں’ میں تقسیم کر دیں گے۔
حزب اختلاف کانگریس کے رکن اسمبلی عبدالباطن کہتے ہیں این آرسی کے بعد اب یہ ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔
’آسام کو فرقہ پرست سیاست کی تجربہ گاہ بنا دیا گیا ہے۔
حکومت کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو اتنا بےبس اور لاچار کر دیا جائے کہ یہ آواز نہ اٹھا سکیں۔‘
سوشل میڈیا پر اس عمل کی مذمت
اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد انڈین سوشل میڈیا پر شدید نوعیت کا رد عمل سامنے آیا ہے جس میں اکثریت لوگوں نے فوٹوگرافر کے عمل کی مذمت کی ہے۔