
اس ویڈیو کلپ میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک بچے کے والد فوجی ہیں اور عید کے موقع پہ انہیں چھٹی نہیں ملتی جس کی وجہ سے بچہ اداس ہو جاتا ہے۔بچہ روزانہ بس سٹاپ پہ جاتا ہے اور اپنے بابا کے آنے کا انتظار کرتا ہے۔ ماں بچے کو سمجھاتی ہے کہ بیٹا آپکے بابا کا بارڈر پہ ہونا بھی ضروری ہے ورنہ سب لوگ سکون سے کیسے رہیں گے۔
اگلے دن عید کے موقع پہ دونوں طرف کے مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ ایک طرف اس بچے کے بابا فوجیوں کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف بچے اپنے گاؤں کی مسجد میں عید کی نماز ادا کرتے ہیں۔ نماز کے بعد بچے کو ایک نمازی یہ کہتا ہے کہ اگر تمہارے بابا دو دن کے لیے ہی آ جاتے تو عید اچھی گزر جاتی۔ جس پر بچہ کہتا ہے کہ اسی لیے تو بابا نہیں آئے کہ سب کی عید اچھی گزر جائے۔

یہ ویڈیو کلپ شہدا کے سوگواروں کے لیے ایک پرسہ ہے اور ان لوگوں کے لیے ایک امید کی کرن کا پیغام ہے جن کے بھائی ،جن کے باپ، جن کے بیٹے ،سرحدوں پر لوگوں کی حفاظت کے لیے اپنی عیدیں ،اپنے تہوار قربان کرتے رہتے ہیں۔ 6 ستمبر کا دن قریب ہے اور یہ دن یاددہانی ہے ان جانثاروں کی جن کی شہادت کی گواہ اس وطن کی مٹی ہے اور جنہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں۔
افواج پاکستان نے ہر محاذ پر دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور یہ ثابت کیا کہ ہمیں اپنی سرحدوں کی حفاظت کا ہنر آتا ہے۔
تاریخ اس بات کی گواہ رہی ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ اپنی تلوار سے کسی نہتے یا غریب کا سر نہیں کاٹا۔ آج جب فوجیں بندوقوں سے لڑتی ہیں اس دور میں بھی خواہ کشمیر کا محاذ ہو،خواہ کارگل کی لڑائی ہو ، ہم نے ہمیشہ اپنا دفاع کیا ہے اور خود سے کسی جنگ میں نہیں کودے۔ ہمارے اس ٹکڑے پر نظریں رکھنے والوں کو اب یہ علم ہو چکا ہے کہ پاکستان کے مسلمان مٹھی بھر سہی لیکن انکو دھمکایا یا ڈرایا نہیں جا سکتا۔ اس جدو جہد میں ہمارے نہ جانے کتنے نوجوانوں کا خون بہہ گیا۔ کتنی ماؤں نے سبز و سفید جھنڈوں کو اپنے سینے سے لگایا ہے۔

کتنے والدین نے جنازوں میں کھڑے ہو کر اپنے جوان بچوں کے لیے چار تکبیریں پڑھی ہیں۔یہ مقام، یہ وقت بہت مشکل ہوتا ہے۔ جن کے بھائیوں بیٹوں کو ملک کے دوردراز حصوں میں ڈیوٹی کرنی پڑتی ہے انکے حوصلے کو سلام ہے کہ وہ لوگ اپنے پیاروں کی دوری صرف اس لیے برداشت کرتے ہیں تا کہ سارے ملک کے لوگ آرام سے سو سکیں اور اس ملک میں اپنے آپ کو آزاد محسوس کر سکیں۔